بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سنت مؤکدہ و غیر مؤکدہ کی تعریف، حکم، طریقہ اور ادائیگی میں فرق کا بیان


سوال

کیا سنت مؤکدہ  اور غیر مؤکدہ کے ادا کرنے میں کوئی فرق ہے؟

جواب

سنت مؤکدہ وہ سنت نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ مداومت کے ساتھ پڑھی ہے، اور کبھی بھی بلا کسی شدید عذر کے اسے چھوڑا نہیں ہے، جب کہ سنت غیر مؤکدہ وہ سنت نماز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی پڑھی ہے اور کبھی بلا کسی عذر کے چھوڑی بھی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےدن رات میں بارہ رکعات سنتیں پڑھنے کی خود پابندی کی اور تاکید بھی فرمائی ہے، وہ بارہ رکعتیں یہ ہیں: 

دو رکعتفجر سے پہلے  ،چار رکعتظہر سے پہلے اور دو رکعتظہر کے بعد ،دو رکعتمغرب کے بعد اور دو رکعتعشاء کے بعد۔

 سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں فرق یہ ہے کہ سنت مؤکدہ کا پڑھنا لازم ہے اور اس نماز کو بلا کسی عذر کے چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے، جب کہ سنت غیر مؤکدہ کے پڑھنے پر بہت ثواب ملتا ہے لیکن  بلا عذر چھوڑنے پر کوئی گناہ نہیں ملتا۔ چوں کہ  سنت غیر مؤکدہ نفل نماز کے درجہ میں ہے، اس لیے اس پر نفل نماز والے احکام ہی جاری ہوتے ہیں۔

سنتِ غیر مؤکدہ کی ادائیگی کا طریقہ وہی ہے جو سنتِ مؤکدہ کا ہے، دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، دونوں کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا اور اس کے ساتھ کوئی سورت یا تین مختصر آیات یا ایک طویل آیت پڑھنا واجب ہے۔ البتہ صرف اتنا فرق ہے کہ چار رکعات سنتِ غیر مؤکدہ میں ہر دو رکعت کی حیثیت مستقل نماز کی ہے؛ اس لیے اس میں افضل یہ ہے کہ دوسری رکعت کے قعدہ میں التحیات کے بعد درود شریف اور دعا بھی پڑھی جائے، پھر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوا جائے، اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہونے کے بعد سورہ فاتحہ سے پہلے ثناء اور تعوذ و تسمیہ بھی پڑھ لیا جائے، لیکن یہ طریقہ افضل ہے، لازم نہیں، لہٰذا اگر کوئی سنتِ غیر مؤکدہ پڑھتے ہوئے سنتِ مؤکدہ کی طرح پہلے قعدہ میں صرف التحیات پڑھ کر کھڑا ہوجائے اور تیسری رکعت میں ثناء نہ پڑھے تو بھی اس کی نماز درست ہوجائے گی، جب کہ چار رکعت والی سنت  مؤکدہ کے پہلے قعدہ میں تشہد پڑھنے کے فورًا بعد تیسری رکعت کے  لیے کھڑا ہونا ضروری ہے، غلطی یا بھول سے درود شریف پڑھنے کی صورت میں قیام میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوجائے گا۔ اسی طرح سنت مؤکدہ میں ثناء  بھی صرف پہلی رکعت میں ہی پڑھی جاتی ہے۔

ایک اور فرق یہ بھی ہے کہ  چوں کہ سنت غیر مؤکدہ کا ہر شفعہ (دو رکعت) مستقل علیحدہ حیثیت رکھتا ہے اور ہر شفعہ کا قعدہ ،قعدہ اخیرہ شمار ہوتا ہے، اس  لیے چار رکعت والی سنت غیر مؤکدہ نماز میں اگر پہلے شفعہ میں قعدہ میں (تشہد پڑھنے کے  لیے)  نہ بیٹھے تو وہ شفعہ باطل ہوجائے گا، البتہ چار رکعت والی سنت مؤکدہ نماز میں اگر پہلے شفعہ کے قعدہ میں نہ بیٹھے، لیکن آخری قعدہ میں سجدہ سہو کرلے تو  نماز ہوجائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 16):

’’(ولا يصلى على النبي صلى الله عليه وسلم في القعدة الأولى في الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها) ولو صلى ناسيا فعليه السهو، وقيل: لا شمني (ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها) لأنها لتأكدها أشبهت الفريضة (وفي البواقي من ذوات الأربع يصلي على النبي) صلى الله عليه وسلم (ويستفتح) ويتعوذ ولو نذرا لأن كل شفع صلاة.‘‘

البحرالرائق میں ہے:

’’سنة مؤكدة قوية قريبة من الواجب حتى أطلق بعضهم عليه الوجوب، ولهذا قال محمد: لو اجتمع أهل بلد على تركه قاتلناهم عليه، وعند أبي يوسف يحبسون ويضربون وهو يدل على تأكده لا على وجوبه.‘‘ [3/ 6]

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبة من الواجب في لحوق الإثم، كما في البحر ويستوجب تاركها التضليل واللوم، كما في التحرير، أي على سبيل الإصرار بلا عذر.‘‘ [2/ 12]

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’تركه لايوجب إساءةً ولا عتابًا كترك سنة الزوائد، لكن فعله أفضل.‘‘ [1/ 477، دارالفکر]

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144209200088

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں