احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ان کی شادی کے موقع پر کچھ ضروری سامان دیا تھا تو کیا اس فعل کو سنت کا نام دیا جاسکتا ہے؟
واضح رہے کہ سنت لغت میں :" منہج، راستے، عادت اور طریقے " کو کہتے ہیں خواہ وہ طریقہ اچھا ہو یا بُرا،اور اصطلاح میں سنت سے مراد: آپ علیہ الصلوة والسلام کے اقوال وافعال اور تقریر جو آپ سے منقول ہیں اور وہ جس کے کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصد فرمایا هو۔
صورتِ مسئولہ میں احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو شادی کے موقع پر ضروری سامان دیا تھا، لہذا شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو زندگی کے ضروری سامان دینے کو " سنت" کہنا درست ہے،تاہم اپنی بیٹی کو ضرورت سے زائد زیور، کپڑے اور دیگر غیر ضروری سامان دینے میں افراط اور غلو سے کام لینااور اس کے لیے قرض وغیرہ لینا جو آج کل رواج بن چکاہے وہ سنت نہیں بلکہ بدعت سیئہ ہے،اس سے بچنا ضروری ہے ۔
فضائل الصحابة لابن حنبل میں ہے:
"عن علي قال: جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة في خميل وقربة ووسادة من أدم حشوها ليف. قال معاوية: إذخر، قال أبي: الخميل: القطيفة المخملة."
[فضائل علي رضي الله عنه،ج:2، ص:699،ط:مؤسسة الرسالة ]
البدایۃ والنہایہ میں ہے:
"عن مجاهد «عن علي قال: خطبت فاطمة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت مولاة لي: هل علمت أن فاطمة قد خطبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلت: لا. قالت: فقد خطبت، فما يمنعك أن تأتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فيزوجك؟ فقلت: وعندي شيء أتزوج به؟ ، فقالت: إنك إن جئت رسول الله صلى الله عليه وسلم زوجك. قال: فوالله ما زالت ترجيني حتى دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أن قعدت بين يديه أفحمت، فوالله ما استطعت أن أتكلم جلالة وهيبة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما جاء بك، ألك حاجة؟ فسكت، فقال: لعلك ..."
[کتاب المغازی، ج:5، ص:310، ط: دار عالم الکتب]
عمدۃ القاری میں ہے:
"والمراد بالسنة: ماجاء عن النبي صلى الله عليه وسلم من أقواله وأفعاله وتقريره وماهم بفعله."
[كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، ج:25،ص:35، ط:دار الكتب العلمية]
التعریفات میں ہے:
"السُّنّة: في اللغة: الطريقة، مرضية كانت أو غير مرضية، وفي الشريعة: هي الطريقة المسلوكة في الدين من غير افتراض وجوب، فالسُّنة: ما واظب النبي صلى الله عليه وسلم عليها، مع الترك أحيانًا، فإن كانت المواظبة المذكورة على سبيل العبادة؛ فسنن الهدى، وإن كانت على سبيل العادة؛ فسنن الزوائد؛ فسنة الهدى ما يكون إقامتها تكميلًا للدين، وهي التي تتعلق بتركها كراهةً أو إساءة، وسنة الزوائد هي التي أخذها هدى -أي إقامتها حسنة- ولا يتعلق بتركها كراهة ولا إساءة كسير النبي صلى الله عليه وسلم في قيامه وقعوده ولباسه وأكله."
[ص:122، ط:دار الكتب العلمية]
امداد الاحکام میں ہے:
"باپ کا اپنی لڑکی کو نکاح کے وقت جہیز دینا سنت نبویہ سے ثابت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کو شادی کے وقت جہیز دیا ہے، اسی طرح نکاح کے وقت شوہر کا عورت کو زیور کپڑے وغیرہ دینا سنت سے ثابت ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس وقت نکاح کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس جانا چاہا تو حضور نے فرمایا: "أعطھا شيئًا، قال: ماعندي ما أعطيتها! قال: فأين درعك الحطمية . الحديث. و في حديث الواهبة نفسها لرسول الله صلى الله عليه و سلم و لم يكن له فيها غرض فقام رجل و قال: زوجنيها يا رسول الله إن لم يكن لك بها حاجة! فقال: هل عندك ما تعطيها؟ قال: لا إلا إزاري، قال: فالتمس شيئًا و لو خاتمًا من الحديد. الحديث. كلاهما صحيح" ان روایات سے ثابت ہے کہ شوہر کو عورت پاس جانے سے پہلے اس کو کچھ دینا چاہیے یہ عورت کا حق ہے۔ پس شادی میں کپڑے زیور وغیرہ دینے کا جو رواج ہے یہ رواج فی نفسہ خلاف شرع نہیں۔ البتہ اس میں افراط و غلو مناسب نہیں کہ اس قدر اہتمام کیا جائے جس سے پریشانی ہو اور قرض کا بار عظیم ہوجائے۔ باقی اپنی حیثیت کے موافق اہتمام کرنا شریعت کے موافق ہے۔
(کتاب النکاح، ص:371، ج:2، ط:مکتبہ دار العلوم)
آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:
"والدین کی طرف سے لڑکی کو جو تحفہ دیاجاتاہے، اسے جہیز کہتے ہیں اور اپنی حیثیت کے مطابق والدین بیٹی کو کچھ نہ کچھ دیتے ہیں، پس اگر نمود ونمائش کے بغیر والدین بیٹی کو اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دیں تو یہ بلاشبہ سنت ہے، لیکن ہمارے دور میں جس جہیز کا رواج ہے وہ سنت نہیں بلکہ بدعت سیئہ ہے، جو بہت سی قباحتوں کا مجموعہ ہے۔"
(کتاب النکاح، جہیز، ج:6، ص:247، ط:لدھیانوی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401100098
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن