بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 جمادى الاخرى 1446ھ 09 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سنتِ مؤکدہ کا بلا عذر چھوڑنا گناہ ہے


سوال

میں نے سنا ہے کہ سنتِ مؤکدہ چھوڑنا گناہ نہیں ہے،  اس  کی  وضاحت  میں 4  حدیثوں کا حوالہ بھی دیتے ہیں کہ نماز فرض ہی ہے،  سنتِ مؤکدہ پڑھو تو  ثواب،  نا پڑھو تو کوئی گناہ نہیں ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فرض نماز تو فرض ہے، اور وتر کی نماز واجب ہے، ان دونوں کو چھوڑنا تو کبیرہ گناہ ہے، اگر وقت پر نہیں پڑھی تو بعد میں قضا پڑھنا لازم ہے، ان کا مستقل تارک فاسق ہے۔  سنتِ مؤکدہ کااہتمام کرناواجب کے قریب ہے، بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ کاترک بھی جائز نہیں ہے اور باعث گناہ ہے۔  جوشخص بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ ترک کرتاہے وہ گناہ گار اور لائقِ ملامت ہے، اور اللہ تعالٰی کے  یہاں درجات سے محروم ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محرومی کا اندیشہ ہے، یہاں تک کہ فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان سنتوں کو صحیح تو سمجھتا ہے، لیکن بلاعذر سنتِ مؤکدہ کو چھوڑنے کی عادت بنالیتا ہے تو یہ گناہ گار ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص ان سنتوں کو حق نہ سمجھتے ہوئے چھوڑ دے تو  یہ عمل انسان کو کفر تک پہنچادے گا۔

البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً: وقت تنگ ہے اور صرف فرض نماز ادا کی جاسکتی ہویاکوئی ضرورت  ہو تو اس وقت سنتوں کو چھوڑ سکتاہے۔ باقی سنتِ غیر مؤکدہ اور نوافل میں پڑھنے اور نہ پڑھنے میں اختیار ہے، اگر کوئی پڑھے گا تو اسے ثواب ملے گا اور نہ پڑھنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، تاہم انہیں بالکل نہ پڑھنے کی عادت بنالینا بھی مناسب نہیں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ دونوں کا ثبوت  احادیث مبارکہ میں موجود ہے، تاہم مؤکدہ سے متعلق زیادہ تاکید آئی ہے، اور بلا عذر چھوڑنا یا مستقل چھوڑ دینا باعث گناہ ہے۔

نیز جن احادیث مبارکہ میں  قیامت کے روز فرض نماز کی کمی کو نوافل سے پورا کرنے کا ذکر آیا ہے، وہاں جو لفظ استعمال ہوا ہےتطوع اور تطوع کا معنی ہے فرض اور واجبات پر زیادتی کے ہیں نوافل کا اطلاق فرض کے علاوہ کے لیے ہوا ہے  جو سنت ااور نفل دونوں کو شامل ہیں ، صرف نفل مراد لینا درست نہیں ہے۔

دوسری بات سنت سے متعلق یہ ہے کہ محدثین نے اپنی کتابوں میں سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ سے متلق مستقل ابواب قائم کر کے ان ابواب کے تحت ان روایات کو ذکر کیا ہے جن سے سنت کا ثبوت ہے، اگر سنت کا ثبوت نہ ہوتا تو محدثین اپنی کتابوں میں سنت کے ابواب ہی قائم نہیں کرتے، ان کا ابواب قائم کرنا اور اس متعلق روایات لانا اس بات کی دلیل ہے کہ سنت کا ثبوت ہے اور بلا عذر سنت مؤکدہ کا چھوڑنا گناہ ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌ثابر ‌على ثنتي عشرة ركعة من السنة بنى الله له بيتا في الجنة: أربع ركعات قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء، وركعتين قبل الفجر".

(سنن ترمذی، أبواب الصلاة، ج:2، ص:273،ط:مطبعة مصطفى البابي الحلبي مصر)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا إسحاق بن سليمان الرازي، عن مغيرة بن زياد، عن عطاء، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ثابر على ثنتي عشرة ركعة من السنة، بني له بيت في الجنة، أربع قبل الظهر، وركعتين بعد الظهر، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء، وركعتين قبل الفجر".

(سنن ابن ماجه، باب ما جاء في ثنتي عشرة ركعة من السنة، ج: 1، صفحہ: 361، رقم الحدیث: 1140، ط: دار إحياء الكتب العربية - فيصل عيسى البابي الحلبي)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا مغيرة بن زياد، عن عطاء، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «من ثابر على ثنتي عشرة ركعة في اليوم والليلة، دخل الجنة أربعا قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء، وركعتين قبل الفجر".

(السنن الكبرى للنسائي، ثواب من ثابر على اثنتي عشرة ركعة في اليوم والليلة، ج: 2، صفحہ: 181، رقم الحدیث: 1471، ط: مؤسسة الرسالة - بيروت)

وفیہ ایضاً:

" أخبرنا أبو عثمان الضبي، أنا أبو محمد الجراحي، نا أبو العباس المحبوبي، نا أبو عيسى الترمذي، نا محمود بن غيلان، نا مؤمل، نا سفيان الثوري، عن أبي إسحاق، عن المسيب بن رافع، عن عنبسة بن أبي سفيان، عن أم حبيبة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى في يوم وليلة ثنتي عشرة ركعة بني له بيت في الجنة: أربعا قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء، وركعتين قبل صلاة الفجر ".

( شرح السنة للبغوی باب السنن الرواتب، ج: 3، صفحہ: 444، رقم الحدیث: 866، ط: المكتب الإسلامي - دمشق، بيروت) 

 كتاب التعريفات میں ہے:

"التطوع: اسم لما شرع زيادة على الفرض والواجبات".

(المؤلف: علي بن محمد بن علي الزين الشريف الجرجاني (المتوفى: 816هـ) باب التاء، ص: 61، ط:دار الكتب العلمية بيروت -لبنان) 

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الصلاة المسنونة فهي السنن المعهودة للصلوات المكتوبة، والكلام فيها يقع في مواضع: في بيان مواقيت هذه السنن، ومقاديرها جملة وتفصيلا... ومقدار جملتها اثنتا عشرة ركعة: ركعتان وأربع، وركعتان وركعتان،وركعتان في ظاهر الرواية،وأما مقدار كل واحدة منها، ووقتها على التفصيل: فركعتان قبل الفجر، وأربع قبل الظهر لا يسلم إلا في آخرهن، وركعتان بعده، وركعتان بعد المغرب، وركعتان بعد العشاء كذا ذكر محمد في الأصل، وذكر في العصر والعشاء إن تطوع بأربع قبله فحسن، وذكر الكرخي هكذا إلا أنه قال في العصر: وأربع قبل العصر، وفي العشاء وأربع بعد العشاء...والأصل في السنن ما روي عن عائشة - رضي الله عنها - عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «من ثابر على اثنتي عشرة ركعة في اليوم والليلة بنى الله له بيتا في الجنة: ركعتين قبل الفجر، وأربع قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد العشاء» ، وقد واظب رسول الله صلى الله عليه وسلم عليها ولم يترك شيئا منها إلا مرة أو مرتين لعذر ... و روى جماعة من الصحابة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه «كان يصلي بعد الزوال في كل يوم أربع ركعات»...وروي في بعضها أنه صلى أربعا، وفي بعضها ركعتين فإن صلى أربعا كان حسنا لحديث أم حبيبة - رضي الله عنها - عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال «من صلى أربع ركعات قبل العصر كانت له جنة من النار» وذكر في الأصل وإن تطوع بعد المغرب بست ركعات كتب من الأوابين وتلا قوله تعالى {فإنه كان للأوابين غفورا} [الإسراء: 25] ، وإنما قال في الأصل: إن التطوع بالأربع قبل العشاء حسن؛ لأن التطوع بها لم يثبت أنه من السنن الراتبة، ولو فعل ذلك فحسن؛ لأن العشاء نظير الظهر في أنه يجوز التطوع قبلها وبعدها...وأما السنة قبل الجمعة وبعدها فقد ذكر في الأصل: وأربع قبل الجمعة، وأربع بعدها، وكذا ذكر الكرخي... أما الأربع قبل الجمعة؛ فلما روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتطوع قبل الجمعة بأربع ركعات» ؛ ولأن الجمعة نظير الظهر، ثم التطوع قبل الظهر أربع ركعات كذا قبلها".

[كتاب الصلاة، ج:1، ص: 284 و285، ط: دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100602

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں