سنت مؤکدہ کا کیا حکم ہے؟
سنت مؤکدہ کااہتمام کرناواجب کے قریب ہے،بلاکسی عذر کے سنت مؤکدہ کاترک جائز نہیں ہے جوشخص بلاکسی عذر کے سنت مؤکدہ ترک کرتاہے وہ گناہ گار اور لائق ملامت ہے۔البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً وقت تنگ ہے اور صرف فرض نماز ادا کی جاسکتی ہویاکوئی ضرورت تو اس وقت سنتوں کو چھوڑ سکتاہے۔[کفایت المفتی 3/319،دارالاشاعت]
البحرالرائق میں ہے:
"سنة مؤكدة قوية قريبة من الواجب حتى أطلق بعضهم عليه الوجوب، ولهذا قال محمد: لو اجتمع أهل بلد على تركه قاتلناهم عليه، وعند أبي يوسف يحبسون ويضربون وهو يدل على تأكده لا على وجوبه."
(کتاب الصلاۃ، باب الاذان، ج: 1، صفحہ: 169، ط: دار المعرفة بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبة من الواجب في لحوق الإثم، كما في البحر ويستوجب تاركها التضليل واللوم، كما في التحرير، أي على سبيل الإصرار بلا عذر".
(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، مطلب في السنن والنوافل،ج: 2، صفحہ: 12، ط: ایچ، ایم، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100272
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن