بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں فرق


سوال

سنتِ مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں کیا فرق ہے؟ ان کے پڑھنے کے طریقے میں کیا فرق ہے؟

جواب

سنت: وہ کام جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے  کسی  نےکیا ہو اور اس کی تاکید کی ہو  یا ترغیب دی ہو، اس کی دوقسمیں ہیں: 
(1) سنتِ مؤکدہ (2) سنتِ غیرمؤکدہ۔
سنتِ مؤکدہ: وہ ہے جس  کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہمیشہ  کیا ہو یا کرنے کی تاکید کی ہو اور بلا عذر ترک نہ کیا ہو۔

سنتِ مؤکدہ کااہتمام کرنا واجب کے قریب ہے، بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ کاترک جائز نہیں ہے جوشخص بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ ترک کرتاہے وہ گناہ گار اور لائق ملامت ہے۔البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً وقت تنگ ہے اور صرف فرض نماز ادا کی جاسکتی ہویاکوئی ضرورت  تو اس وقت سنتوں کو چھوڑ سکتاہے۔[کفایت المفتی 3/319،دارالاشاعت]

سنتِ غیر مؤکدہ وہ فعل ہے جسے نبی کریمﷺ یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیاہو اورکبھی بغیر کسی عذر کے ترک بھی کیا ہو،اس کا کرنے والا ثواب کا مستحق ہے اور چھوڑنے والا عذاب یا ملامت کا مستحق نہیں ہے۔ تاہم بلاعذرمستقل طورپراس کے ترک کی عادت بنانابہتر نہیں۔

سنتِ مؤکدہ اور  غیر مؤکدہ کی ادائیگی کا طریقہ تقریبًا  ایک ہی ہے، دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، دونوں کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھنا اور اس کے ساتھ کوئی سورت یا تین مختصر آیات یا ایک طویل آیت پڑھنا واجب ہے۔ البتہ صرف اتنا فرق ہے کہ اگر سنتِ غیر مؤکدہ چار رکعت ایک سلام سے پڑھی جارہی ہو تو اس میں افضل یہ ہے کہ دوسری رکعت کے قعدہ میں التحیات کے بعد درود شریف اور دعا بھی پڑھی جائے پھر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوا جائے، اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہونے کے بعد سورہ فاتحہ سے پہلے ثناء اور تعوذ و تسمیہ بھی پڑھ لیا جائے، لیکن یہ طریقہ افضل ہے، لازم نہیں، لہٰذا اگر کوئی سنتِ غیر مؤکدہ پڑھتے ہوئے سنتِ مؤکدہ کی طرح پہلے قعدہ میں صرف التحیات پڑھ کر کھڑا ہوجائے اور تیسری رکعت میں ثناء نہ پڑھے تو بھی اس کی نماز درست ہوجائے گی۔

البحرالرائق میں ہے:

سنة مؤكدة قويةقريبة من الواجبحتى أطلق بعضهم عليه الوجوب، ولهذا قال محمد: لو اجتمع أهل بلد على تركه قاتلناهم عليه، وعند أبي يوسف يحبسون ويضربون وهو يدل على تأكده لا على وجوبه۔[3/6ط:رشیدیه]

فتاویٰ شامی میں ہے:

 ولهذا كانت السنة المؤكدةقريبة من الواجبفي لحوق الإثم كما في البحر ويستوجب تاركها التضليل واللوم كما في التحرير أي على سبيل الإصرار بلا عذر. [2/12ط: سعید]

فتاویٰ شامی میں ہے:

فالأولى ما في التحرير أن ما واظب عليه مع ترك ما بلا عذر سنة، وما لم يواظب عليه مندوب ومستحب وإن لم يفعله بعد ما رغب فيه. (1/ 124ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

 تركه لا يوجب إساءةً ولا عتابًا كترك سنة الزوائد، لكن فعله أفضل. [1/477ط: سعید] 

البحر الرائق میں ہے:

فالأولى ما عليه الأصوليون من  عدم الفرق بين المستحب والمندوب وأن ما واظب عليه مع ترك ما بلا عذر سنة وما لم يواظب عليه مندوب ومستحب وإن لم يفعله بعد ما رغب فيه كذا في التحرير وحكمه الثواب على الفعل وعدم  اللوم على الترك. (1 / 29ط:رشیدیه)

 فتاوی شامی میں ہے:

(ولايصلى على النبي صلى الله عليه وسلم في القعدة الأولى في الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها) ولو صلى ناسياً فعليه السهو، وقيل: لا، شمني (ولايستفتح إذا قام إلى الثالثة منها)؛ لأنها لتأكدها أشبهت الفريضة (وفي البواقي من ذوات الأربع يصلي على النبي) صلى الله عليه وسلم (ويستفتح) ويتعوذ ولو نذراً؛ لأن كل شفع صلاة (وقيل:) لايأتي  في الكل وصححه في القنية. (2/ 16ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201650

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں