بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سنتِ غیرمؤکدہ دو دو رکعات کرکے پڑھنا


سوال

سنتِ غیر مؤکدہ کیا دو رکعت کر کے پڑھ سکتے ہیں ؟  کیا سنتِ غیر مؤکدہ کی تیسری رکعات میں ثنا پڑھی جاتی ہے؟

جواب

 جو سنت نماز یں ایک سلام سے چار رکعت منقول ہیں،چاہے وہ مؤکدہ ہوں  (جیسے ظہر سے قبل کی چاررکعات)،یا غیر مؤکدہ ہوں  (جیسے عصر یا عشاء سے قبل چار رکعات)، ان سنتوں کو اسی طریقے کے مطابق ادا کرنا چاہیے جو نبی کریم ﷺسے منقول ہے، لہذا جہاں چار رکعتیں ایک سلام سے منقول ہیں ،وہ چاروں ایک سلام سےادا کرنی  چاہییں۔

یہ یاد رہے کہ پنج وقتہ نماز میں ظہر سے قبل چارر کعات سنت مؤکدہ ہیں، یہ ایک سلام سے ادا کرنا لازم ہیں۔اسی طرح جمعہ سے قبل  چار رکعتیں اورجمعہ کے بعد چار رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں۔

عصر سے قبل چار رکعات سنتیں بھی منقول ہیں اور بسااوقات نبی کریمﷺدو رکعتیں ادا فرماتے،لہذا عصر سے قبل چار رکعتیں ایک سلام سے ادا کرنا بھی جائز ہے اور دو رکعتیں سنت  (نفل) پڑھنا بھی  درست ہے۔

عشاء  سے قبل چار رکعات  ایک سلام  کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے، اور اگر کوئی شخص  فقط دو رکعت نفل ادا کرتا ہے تو  یہ بھی درست ہے۔

یہاں یہ مسئلہ بھی یاد رہے کہ سنتِ مؤکدہ کے اداکرنے کا وہی طریقہ ہے جو چار رکعت فرض کی ادائیگی کا ہے ، البتہ فرض کی آخری دورکعتوں میں  صرف سورۂ فاتحہ پڑھی جائے گی اور سنت میں چاروں رکعتوں میں  سورۂ فاتحہ کے علاوہ کوئی اور سورت یا آیات بھی ملائی جائیں گی ،قعدۂ اولی میں تشہد پر اکتفا کیا جائے گا اورتیسری رکعت میں ثناء نہیں پڑھیں گے۔ لیکن سنتِ غیر مؤکدہ (جیسے عصر اور عشاء سے قبل  کی سنتیں)اور نوافل میں ہر دو رکعت کی حیثیت مستقل نماز کی ہے ،اس لیے سنتِ غیرمؤکدہ میں   زیادہ  بہتر یہ ہے کہ ہر قعدہ میں تشہد کے ساتھ ساتھ درود بھی پڑھاجائے اور دعا بھی، اور  قعدہ  اولی کے بعد اگلی (تیسری)رکعت میں ثناء اور تعوذ بھی پڑھے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (3 / 894):

"(وعن علي رضي الله عنه قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قبل العصر أربع ركعات، يفصل بينهن بالتسليم على الملائكة المقربين، ومن تبعهم من المسلمين» ) : والأظهر ما قاله ابن حجر: فيه نظر ; إذ لفظ الحديث يأبى ذلك، وإنما المراد بالتسليم فيه للتحلل من الصلاة، فيسن للمسلم منها أن ينوي بقوله: السلام عليكم، من على يمينه ويساره وخلفه من الملائكة ومؤمني الإنس والجن. اهـ. لكن ما تقدم أنسب إلى المذهب، ولا شك أنه يجوز إذا صلى أربعا أن يكون بتسليمة أو بتسليمتين، والخلاف في الأولوية، ولاختلاف الآثار خير محمد بن الحسن والقدوري بين أن يصلي أربعا قبل العصر أو ركعتين (رواه الترمذي) وقال: حسن، ورواه أحمد أيضا، نقله ميرك".

الجوهرة النيرة - (1 / 282):

"( قوله : وأربعا قبل الظهر ) يعني بتسليمة واحدة وهن مؤكدات قال في المجرد يقرأ في كل ركعة نحوا من عشر آيات وكذا في الأربع بعد العشاء وإن أداهن بتسليمتين لم يعتد بهن من السنة ؛ لأن النفل تبع للفرض والفرض أربع فكذا النفل."

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 16):

" ( ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها ) أشبهت الفريضة ( وفي البواقي من ذوات الأربع يصلي على النبي ) صلى الله عليه وسلم ( ويستفتح ) ويتعوذ ولو نذرا لأن كل شفع صلاة."

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (2 / 12):

 "( وسن ) مؤكدا ( أربع قبل الظهر و ) أربع قبل ( الجمعة و ) أربع ( بعدها بتسليمة ) فلو بتسليمتين لم تنب عن السنة ولذا لو نذرها لا يخرج عنه بستليمتين وبعكسه يخرج (وركعتان قبل الصبح وبعد الظهر والمغرب والعشاء ) شرعت البعدية لجبر النقصان والقبلية لقطع طمع الشيطان ( ويستحب أربع قبل العصر وقبل العشاء وبعدها بتسليمة ) وإن شاء ركعتين."

بدائع الصنائع:(1/ 284):

"وذكر في العصر والعشاء إن تطوع بأربع قبله فحسن، وذكر الكرخي هكذا إلا أنه قال في العصر: وأربع قبل العصر، وفي العشاء وأربع بعد العشاء، وروى الحسن عن أبي حنيفة وركعتان قبل العصر، والعمل فيما روينا على المذكور في الأصل .... وإنما قال في الأصل: إن التطوع بالأربع قبل العشاء حسن؛ لأن التطوع بها لم يثبت أنه من السنن الراتبة، ولو فعل ذلك فحسن؛ لأنّ العشاء نظير الظهر في أنه يجوز التطوع قبلها وبعدها".

فی معارف السنن:

"أقول: لم أجد في الأربع قبل العشاء حديثًا في كتب الحديث مع فحص بالغ، وذكر في الكبيري حديث البراء بن عازب معزوًا إلي سنن سعيد بن منصور : " من صلى قبل العشاء أربعًا كأنما تهجد من ليلته ... الخ " وهذا خطأ، فإنّ رواية "سنن سعيد بن منصور" رأيتها في عدة كتب ليس في واحد من منها ذلك، بل فيها " من صلى قبل الظهر أربعًا كأنما تهجد من ليلته ... الخ".

(معارف السنن، (4/119) تحقيق أربع قبل العشاء، ط: مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي)

"ومتون الحنفية متطابقة على ذكر ندب الأربع قبل العشاء، فربما يكون له حجة في كتب أئمتنا المخطوطة أو الضائعة، والله أعلم.

(معارف السنن، (4/120) تحقيق أربع قبل العشاء، ط: مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201304

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں