بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سنی پلاسٹ كے چپکے ہوئے زرات سے وضوہونے نہ ہونے کا شرعی حکم


سوال

پچھلے دنوں خون کا ٹیسٹ کروانے کے لیے میں نے خون دیا خون دینے کے بعد انہوں نے میرے بازو پر سنی پلاسٹ لگا دیا جو دو گھنٹے بعد میں نے اتار دیا، اس کے نیچے سنی پلاسٹ لگانے کی وجہ سے ذرات جمع ہو کر بازو پر چپکے ہوئے تھے، تین دن گزرنے کے بعد میں نے دیکھے اور اس کو ہلکے سے رگڑنے کے بعد اتار دیے تو کیا اس دوران پڑھنے والی تین دن کی نمازیں ہو جائیں گی کیا ان ذرات سے پانی گزرتا رہا یا نہیں؟ ذرات وقفے سے تین جگہ پر تھوڑے تھوڑے تھے جو کہ واضح نظر آرہے تھے کیا نمازیں دوبارہ ادا کرنی پڑیں گی؟

جواب

جن اعضاء کا وضو یا غسل میں دھونا فرض ہے، ان اعضاء تک پانی پہنچانا ضروری ہے، ان میں سے کوئی عضو سوئی کے ناکہ کے برابر بھی خشک نہ رہے کہ اس پر پانی نہ پہنچا ہو ، اگر ان اعضا ء میں سے کسی عضو میں سوئی کے ناکہ کے برابر بھی ایسی جگہ ہو جس تک پانی نہ پہنچا ہو تو وہ وضو اور غسل شرعاً  نا مکمل ہے، اور ایسے نامکمل وضو یا غسل سے پڑھی گئی نماز بھی کالعدم ہوگی اور ذمہ میں اسی طرح فرض رہے گی جس طرح نہ پڑھنے والے کے ذمہ میں رہتی ہے، صورتِ مسئولہ میں بازو پر سنی پلاسٹ لگا کر اتارنے کے بعد اگراس طور سے گوند چپکی ہوئی تھی،جس کی وجہ سے پانی جلد نہیں پہنچا جو کہ ضروری تھا تو اس  کی وجہ سے وضو نہیں ہوا ،اور جو نمازیں اسی حالت میں اد اکی ہیں، ان کا اعادہ لازم ہے،عام طور پر گوند کی وجہ سے پانی داخل نہیں ہوپاتا، اور اگر سنی پلاسٹ پر لگی ہوئی گوند جسم کے ساتھ چپکی نہیں تھی، بلکہ محض وہم ہو، تو ایسی صورت میں بلاوجہ وہم اور شک میں مبتلا ہونا درست نہیں ہے، نمازوں کو لوٹانا بھی لازم نہیں ۔

"حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح"میں ہے:

"و" الثالث "زوال ما يمنع ‌وصول ‌الماء ‌إلى ‌الجسد" لحرمة الحائل "كشمع وشحم" قيد به لأن بقاء دسومة الزيت ونحوه لا يمنع لعدم الحائل وترجع الثلاثة لواحد هو عموم المطهر شرعا البشرةقوله: "كشمع وشحم" وعجين وطين وما ذكره بعضهم من عدم منع الطين والعجين محمول على القليل الرطب ويمنع جلد السمك والخبز الممضوغ الجاف والدرن اليابس في الأنف بخلاف الرطب قهستاني."

(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح لأحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي (ت ١٢٣١ هـ)،ص:62، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

" البحر الرائق شرح كنز الدقائق" میں ہے

"‌ولو ‌لصق ‌بأصل ‌ظفره ‌طين ‌يابس ‌وبقي ‌قدر ‌رأس ‌إبرة ‌من ‌موضع ‌الغسل ‌لم ‌يجز، وإذا كان في أصبعه خاتم إن كان ضيقا فالمختار أنه يجب نزعه أو تحريكه بحيث يصل الماء إلى ما تحته."

( البحر الرائق شرح كنز الدقائق، لزين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (ت ٩٧٠ هـ)، کتاب الطهارۃ ج:1، ص:14، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508102707

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں