بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے اور چاندی میں زکات کاحکم


سوال

 میری ملکیت میں ساڑھے پانچ تولہ سونا ہے اور ایک چاندی کا بریسلٹ ہے اور  پینتیس ہزار والاایک ڈنر سیٹ اور چند اور برتن ہے جو استعمال نہیں ہوئے ہیں اور ایک دس ہزار والا سوٹ جو میرے پاس سب سے مہنگا ہے، میرے پاس نقدی رقم موجود نہیں ہے، جس پر سال گزرا ہو ،آیا مجھ پر زکوة ہے؟ اگر ہے تو چاندی کے اعتبار سے ہوگی، یا سونے کے اعتبار سے ؟ شیخ الاسلام صاحب نے لکھا ہے کہ اگر تین تولہ سونا ہو اور رائج وقت ایک روپیہ بھی ہو تو زکوۃ ادا کرے گا۔ تو لہذا حدیث کے رو سے جو معیار مقررہے ساڑھے سات تولہ وہ کہاں گیا؟اور زکات مجھے خود اداکرناپڑےگی  یا میراشوہراداکرےگا؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے زکات کے معاملہ میں سونے کانصاب ساڑھےسات تولہ سونا اور چاندی کا  ساڑھے باون تولہ مقررکیاہے، لہذا اگر کسی کی ملکیت میں صرف سونایاصرف چاندی ہواور وہ مقررہ نصاب سے کم ہواور اس کے علاوہ دوسرانصاب کوئی نہ ہوتو اس پر زکات واجب نہیں ہوگی، البتہ اگر ایک  سے زائد مختلف اموال  مثلاً:سونا ،نقدی یا چاندی ہو اور ہرایک مالِ نصاب سے کم ہو،یعنی سونابھی نصاب سے کم ہواور چاندی بھی نصاب سے کم ہوتوپھر ایسی صورت میں یہ دیکھا جائیگاکہ دونوں کی مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابریازائدہو تودیگر شرائط کے ساتھ شرعاًاس پر زکات لازم ہوگی،نیز گھر میں زائد کپڑوں اور برتنوں پر شرعاًکوئی زکات لازم نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں  زائدکپڑوں اور برتنوں کے علاوہ سائلہ کی ملکیت میں  چوں کہ ساڑھے پانچ تولہ سونے کے ساتھ چاندی بھی ہے، جس کی وجہ سے دونوں کوملاکرمجموعی اعتبارسے ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچتی ہے؛لہذا سائلہ پر شرعاًزکات اداکرنا لازم ہے۔نیز چوں کہ مذکورہ سونااور چاندی سائلہ ہی کی ملکیت میں ہے؛لہذا زکات کی ادائیگی بھی سائلہ ہی پر لازم ہے، البتہ اگر سائلہ کی اجازت سے شوہر اس کی طرف سے زکات اداکرنا چاہے توشرعاًاس کی اجازت ہے۔

الدرالمختارمیں ہے:

"(و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة) وقالا بالإجزاء، فلو له مائة درهم وعشرة دنانير قيمتها مائة وأربعون تجب ستة عنده وخمسة عندهما فافهم.''

وفی الردتحتہ:

''(قوله ويضم إلخ) أي عند الاجتماع. أما عند انفراد أحدهما فلا تعتبر القيمة إجماعا بدائع؛ لأن المعتبر وزنه أداء ووجوبا كما مر. وفي البدائع أيضا أن ما ذكر من وجوب الضم إذا لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان أقل، فلو كان كل منها نصابا تاما بدون زيادة لا يجب الضم بل ينبغي أن يؤدي من كل واحد زكاته، فلو ضم حتى يؤدي كله من الذهب أو الفضة فلا بأس به عندنا، ولكن يجب أن يكون التقويم بما هو أنفع للفقراء رواجا وإلا يؤد من كل منهما ربع عشره.''

(کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ المال،ج:3،ص:303/ 304،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

''(ولا في ثياب البدن)المحتاج إليها لدفع الحر والبرد ابن ملك (وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذا الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة۔۔۔(قوله وأثاث المنزل إلخ) محترز قوله نام ولو تقديرا، وقوله ونحوها: أي كثياب البدن الغير المحتاج إليها وكالحوانيت والعقارات.''

(کتاب الزکاۃ،ج:2،ص:264/ 265،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

''لو أدى ‌زكاة ‌غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز لأنها وجدت نفاذا على المتصدق لأنها ملكه ولم يصر تائبا عن غيره فنفذت عليه اهـ لكن قد يقال: تجزي عن الآمر مطلقا لبقاء الإذن بالدفع. قال في البحر: ولو تصدق عنه بأمره جاز ويرجع بما دفع عند أبي يوسف. وعند محمد لا يرجع إلا بشرط الرجوع اهـ تأمل.''

(کتاب الزکات،ج:2،ص:269،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101710

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں