بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سنتِ ختنہ کی حد اور ختنہ ادا نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ ختنہ کرانے کا حکم


سوال

میری عمر تقریباً 25سال ہے ،  ختنہ کے بارے میں یہ سوال ہےکہ میں نے تین بار ختنہ کرایا ہے، لیکن جب ذکر بڑا ہوتا تو  ذکر کا سر باہر آتا ہے اور جب ذکر چھوٹا ہوتاتو ایسا لگتا جیسا  ختنہ  ہوئی نہیں، کیا اس صورت میں سنتِ ختنہ ادا ہوئی ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ختنہ کرناشعائرِ اسلام  میں سےہے اور ختنہ میں جتنا حصہ قطع کیا  جاتا ہے اگر اس کےآدھے حصہ سے زائدقطع ہو جائے تو ختنہ ہوجاتی ہے  اور اگر آدھے حصہ یا اس سے کم قطع ہو تو ایسی صورت میں  ختنہ کرانے میں اگر ناقابلِ برداشت تکلیف نہ ہو تو دوبارہ ختنہ کرانی چاہیے  ، لیکن اگر ناقابلِ برداشت تکلیف ہو یا معتبر دین دار ڈاکٹر یہ کہیں کہ اب ختنہ کے لیے کھال قطع کرنا ممکن نہیں تو ایسی صورت میں دوبارہ ختنہ کرانی ضروری نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ  نے  بار بار ختنہ کرا یا ہے، پھر بھی عام حالات میں عضو مخصوص  بالکل ختنہ نہ ہونے کی طرح ہے، یعنی اس کی جلد آدھے حصہ سے زائد کٹی ہوئی نہیں ہے  تو ایسی صورت میں اگر دوبارہ ختنہ کرانے میں نا قابلِ برداشت تکلیف نہ ہو تو دوبارہ ختنہ   کرالینی چاہیے،اور اگر ناقابلِ برداشت تکلیف ہو یا معتبر دین دار ڈاکٹریہ کہیں کہ اب ختنہ کے لیے کھال قطع کرناممکن نہیں  تو ایسی صورت میں  دوبارہ ختنہ کرانا ضروری نہیں۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(صبي حشفته ظاهرة بحيث لو رآه إنسان ظنه مختونا ولا تقطع جلدة ذكره إلا بتشديد ألمه ترك على حاله كشيخ أسلم وقال أهل النظر لا يطيق الختان) ترك أيضا (ولو ختن ولم تقطع الجلدة كلها ينظر فإن قطع أكثر من النصف كان ختانا وإن قطع النصف فما دونه لا) يكون ختانا يعتد به لعدم الختان حقيقة وحكما. (و) الأصل أن (الختان سنة) كما جاء في الخبر (وهو من شعائر الإسلام) وخصائصه."

(مسائل شتٰی: ج:6، ص:751، ط: سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"غلام ختن فلم تقطع الجلدة كلها فإن قطع أكثر من النصف يكون ختانا وإن كان نصفا أو دونه فلا كذا في خزانة المفتين. وفي صلاة النوازل الصبي إذا لم يختن ولا يمكن أن يمد جلدته لتقطع إلا بتشديد وحشفته ظاهرة إذا رآه إنسان يراه كأنه ختن ينظر إليه الثقات وأهل البصر من الحجامين فإن قالوا هو على خلاف ما يمكن الاختتان فإنه لا يشدد عليه ويترك كذا في الذخيرة.  الشيخ الضعيف إذا أسلم ولا يطيق الختان إن قال أهل البصر لا يطيق يترك لأن ترك الواجب بالعذر جائز فترك السنة أولى كذا في الخلاصة. قيل في ختان الكبير إذا أمكن أن يختن نفسه فعل وإلا لم يفعل إلا أن يمكنه أن يتزوج أو يشتري ختانة فتختنه وذكر الكرخي في الجامع الصغير ويختنه الحمامي كذا في الفتاوى العتابية."

(کتاب الکراهیة،الباب التاسع عشر في الختان والخصاء: ج:5، ص:357، ط: حقانیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101710

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں