بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سنن و نوافل بیٹھ کر پڑھنا


سوال

سنت اور نوافل بغیر عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نفل نماز  بلا عذر بھی بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے، قیام پر قدرت ہونے کے باوجود نفل نماز بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے، البتہ بلا عذر بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں ثواب کھڑے ہوکر پڑھنے کے مقابلے میں آدھا ملے گا۔

نیز سنتوں میں  سننِ غیر مؤکدہ نفل ہی کے حکم میں ہیں (جیسا کہ عشاء اور عصر سے پہلے کی چار سنتیں)،  جب کہ سننِ مؤکدہ (جیسا کہ ظہر میں چھ، مغرب اور عشاء کے بعد کی دو سنتیں اور تراویح وغیرہ)  کھڑے ہوکر ہی پڑھنی چاہییں؛  الا یہ کہ عذر لاحق ہو۔

جب کہ فرض اور واجب  نماز میں جو شخص قیام پر قدرت رکھتا ہو اس کے لیے  قیام فرض ہے، بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں، نیز فجر کی سنتوں کی تاکید کی وجہ سے ان میں بھی قیام ضروری ہے، قیام پر قدرت کی صورت میں انہیں بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔

فی مشكاة المصابيح – (1 / 392):

"وعن عمران بن حصين: أنه سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن صلاة الرجل قاعداً؟ قال: «إن صلى قائماً فهو أفضل، ومن صلى قاعداً فله نصف أجر القائم، ومن صلى نائماً فله نصف أجر القاعد» . رواه البخاري".

وفيه أيضا (1 / 393):

"عن عبد الله بن عمرو قال: حدثت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «صلاة الرجل قاعداً نصف الصلاة» قال: فأتيته فوجدته يصلي جالساً فوضعت يدي على رأسه فقال: «مالك يا عبد الله بن عمرو؟» قلت: حدثت يا رسول الله أنك قلت: «صلاة الرجل قاعداً على نصف الصلاة» وأنت تصلي قاعداً قال: «أجل ولكني لست كأحد منكم». رواه مسلم".

في حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح – (1 / 403):

"قوله: ”ولكن له نصف أجر القائم“، يستثنى منه صاحب الشرع صلى الله عليه وسلم، كما ورد عنه صلى الله عليه وسلم فإن أجر صلاته قاعداً كأجر صلاته قائماً فهو من خصوصياته".

في الدر المختار  (1 / 444):

(ومنها القيام)... (في فرض) وملحق به كنذر وسنة فجر في الأصح (لقادر عليه)

وفي حاشية ابن عابدين (رد المحتار) تحته:

(قوله وسنة فجر في الأصح) أما عن القول بوجوبها فظاهر، وأما على القول بسنيتها فمراعاة للقول بالوجوب. ونقل في مراقي الفلاح أن الأصح جوازها من قعود ط.

أقول: لكن في الحلية عند الكلام على صلاة التراويح لو صلى التراويح قاعدًا بلا عذر، قيل: لاتجوز قياسًا على سنة الفجر فإن كلا منهما سنة مؤكدة وسنة الفجر لاتجوز قاعدًا من غير عذر بإجماعهم كما هو رواية الحسن عن أبي حنيفة كما صرح به في الخلاصة فكذا التراويح، وقيل: يجوز و القياس على سنة الفجر غير تام، فإن التراويح دونها في التأكيد فلاتجوز التسوية بينهما في ذلكخ قال قاضي خان: و هو الصحيح. اهـ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200556

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں