بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سنن بعدیہ کو فرض نماز سے پہلے پڑھنے کا حکم


سوال

فرائض کے بعد پڑھی جانے والی سنت بعدیہ کو فرض نماز سے پہلے پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

جو سنتیں رسول اللہ ﷺ سے فرض نماز کے بعد پڑھنا ثابت ہیں ان سنتوں کو فرض نماز سے پہلے پڑھنے سے سنت ادا نہیں ہوگی، بلکہ وہ نماز نفل بن جائے گی اور فرض کے بعد سنت مؤکدہ دوبارہ پڑھنا لازم ہوگی، نیز فقہاءِ کرام نے سنتِ  قبلیہ  اور بعدیہ کی الگ الگ حکمت بیان کی ہے، مثلا سنتِ قبلیہ کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ سنتِ قبلیہ پڑھنے سے شیطان کی اس شخص کے بارے میں نماز چھوڑنے کی طمع اور امید ختم ہوجاتی ہے، جب کہ سنتِ بعدیہ کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ نماز میں جو کمی کوتاہی رہ جائے سنتِ بعدیہ سے اس کی تلافی ہوجائے، لہٰذا سنتِ بعدیہ کو فرض نماز سے پہلے پڑھنے کی صورت میں مقصود حکمت بھی فوت ہوجائے گی۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 12):

’’(وسنّ) مؤكدًا (أربع قبل الظهر و) أربع قبل (الجمعة و) أربع (بعدها بتسليمة) فلو بتسليمتين لم تنب عن السنة، ولذا لو نذرها لا يخرج عنه بتسليمتين، وبعكسه يخرج (وركعتان قبل الصبح وبعد الظهر والمغرب والعشاء) شرعت البعدية لجبر النقصان، والقبلية لقطع طمع الشيطان.

(قوله: لجبر النقصان) أي ليقوم في الآخرة مقام ما ترك منها لعذر كنسيان، وعليه يحمل الخبر الصحيح أن فريضة الصلاة والزكاة وغيرهما إذا لم تتم تكمل بالتطوع، وأوله البيهقي بأن المكمل بالتطوع هو ما نقص من سنتها المطلوبة فيها: أي فلا يقوم مقام الفرض الحديث الصحيح «صلاة لم يتمها زيد عليها من سبحتها حتى تتم» فجعل التتميم من السبحة أي النافلة لفريضة صليت ناقصة لا لمتروكة من أصلها. وظاهر كلام الغزالي الاحتساب مطلقًا، وجرى عليه ابن العربي وغيره لحديث أحمد الظاهر في ذلك اهـ من تحفة ابن حجر ملخصا. وذكر نحوه في الضياء عن السراج، وسيذكر في الباب الآتي أنها في حقه صلى الله عليه وسلم لزيادة الدرجات.(قوله: لقطع طمع الشيطان) بأن يقول إنه لم يترك ما ليس بفرض فكيف يترك ما هو فرض ط. ‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200547

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں