بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صلح نافذ ہونے کے بعد رجوع کرنے کا حکم


سوال

مدعی اور مدعی علیہ کے درمیان صلح کے بعد فسخ کرنے کا حق ہے یا نہیں؟

جواب

باہمی رضامندی سے صلح مکمل ہونے صلح کا معاملہ نافذ ہوجاتا ہے اور صلح کے نافذ ہونے کے بعد کسی ایک فریق کو انفرادی طور پر اس صلح کو فسخ کرنے یا اپنی بات سے رجوع کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

«الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیۃ»  میں ہے:

"«قالوا: ‌إذا ‌تم ‌الصلح على الوجه المطلوب دخل بدل الصلح في ملك المدعي، و سقطت دعواه المصالح عنها، فلايقبل منه الادعاء بها ثانيًا، و لايملك المدعى عليه استرداد بدل الصلح الذي دفعه للمدعي. 

و جاء في م (1556) من مجلة الأحكام العدلية: ‌إذا ‌تم ‌الصلح فليس لواحد من الطرفين - فقط - الرجوع، و يملك المدعي بالصلح بدله، و لايبقى له حق في الدعوى، و ليس للمدعى عليه - أيضًا - استرداد بدل الصلح. و أصل ذلك: أن الصلح من العقود اللازمة، فلذلك لايملك أحد العاقدين فسخه، أو الرجوع عنه بعد تمامه. أما إذا لم يتم فلا حكم له ولا أثر يترتب عليه»."

(کتاب الصلح،باب آثار الصلح،27/ 355،  ط: دارالسلاسل)

«مجلۃ الاحکام العدلیۃ » میں ہے:

"«‌‌الفصل الأول في بيان المسائل المتعلقة بأحكام الصلح.

«‌‌المادة: ‌إذا ‌تم ‌الصلح فليس لواحد من الطرفين فقط الرجوع»."

(‌‌الكتاب الثاني عشر الصلح والإبراء‌‌، الباب الرابع في بيان الصلح والإبراء، ص:303،  ط: نور محمد، كراچي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101197

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں