بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صلح کے بعد ورثاء کا صلح سے انکار کرنا


سوال

ایک فیکٹری کے متعلق تنازع چل رہا تھا، اُس کے دو مالک تھے،  انہوں نے اپنی زندگی میں راضی نامہ بنا لیا تھا، اُس کے کاغذات اور ڈگری بھی موجود ہے، دونوں مالکان کا انتقال ہو چکا ہے، اب ورثاء لڑ رہے ہیں، ایک کے ورثاء کہتے ہیں کہ ہم اس صلح اور راضی نامہ پر راضی نہیں ہیں، ہمارا حصہ بڑھا دیا جائے، ہم نے ان کو بہت سمجھایا، لیکن نہیں مان رہے۔ اب ان کا مطالبہ جائز ہے یا نا جائز؟ اور یہ کس کے حکم میں آتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتًا فریقین نے راضی نامہ اور صلح نامہ بنا لیا تھا  اور دونوں فریق  اُس صلح  پر راضی تھے، تو   فریقین کی جانب سے کی جانے والی یہ   صلح نافذ ہو چکی تھی، اس کے بعد فریقین کے ورثاء میں سے کسی کو  یہ حق نہیں کہ  وہ اس صلح کو باطل قرار دے کر زائد حصے کا مطالبہ کریں،  اب  اگر ایک فریق زائد حصے کا مطالبہ کرتا ہے تو  یہ مطالبہ  نا قابلِ تسلیم ہوگا۔

«الموسوعة الفقهية الكويتية»  میں ہے:

"«قالوا: ‌إذا ‌تم ‌الصلح على الوجه المطلوب دخل بدل الصلح في ملك المدعي، و سقطت دعواه المصالح عنها، فلايقبل منه الادعاء بها ثانيًا، و لايملك المدعى عليه استرداد بدل الصلح الذي دفعه للمدعي. 

و جاء في م (1556) من مجلة الأحكام العدلية: ‌إذا ‌تم ‌الصلح فليس لواحد من الطرفين - فقط - الرجوع، و يملك المدعي بالصلح بدله، و لايبقى له حق في الدعوى، و ليس للمدعى عليه - أيضًا - استرداد بدل الصلح.

و أصل ذلك: أن الصلح من العقود اللازمة، فلذلك لايملك أحد العاقدين فسخه، أو الرجوع عنه بعد تمامه. أما إذا لم يتم فلا حكم له ولا أثر يترتب عليه»."

(الصلح، آثار الصلح،ج:27، ص:355،  ط: دارالسلاسل)

«مجلة الأحكام العدلية» میں ہے:

"«‌‌الفصل الأول في بيان المسائل المتعلقة بأحكام الصلح

المادة (1556) ‌إذا ‌تم ‌الصلح فليس لواحد من الطرفين فقط الرجوع»."

(‌‌الكتاب الثاني عشر الصلح والإبراء‌‌، الباب الرابع في بيان الصلح والإبراء، ص:303،  ط: نور محمد، كراچي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں