میرے بھائی کی شادی ماموں زاد بہن سے ہوئی تھی، ایک سال بعد ان کے ہاں بچہ کی ولادت ہوئی، پھر اس کےبعد کچھ اختلافات کی وجہ سے زوجین میں طلاق ہو گئی تھی جس کی وجہ سے دونوں گھرانوں کے تعلقات خراب ہوگئے، اب میرے بیٹے کی شادی ہو رہی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ سب رشتہ داروں کو اس میں دعوت دوں تاکہ صلح ہو جائے، لیکن میرے والدین ماموں کے گھرانے والوں کو بلانے پر راضی نہیں ہیں۔
قرآن وحدیث کی رو شنی میں صلح کے فضائل بتا دیں تاکہ فریقین آپس میں صلح کر لیں۔
شریعتِ مطہرہ میں صلہ رحمی کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کے فضائل بھی بیان کئے گئے ہیں اور قطع رحمی سے روکنے لیے قطع رحمی کرنے والوں کے لیے وعیدیں سنائی گئی ہیں، لہٰذا صورتِ مسؤلہ میں آپ کے بھائی کے طلاق دینے کی وجہ سے قطع تعلقی ہو گئی تھی تو اب اس کو طول دینے کے بجائے صلح کرلینی چاہیے کیوں کہ شرعاً قطع تعلقی کرنا درست نہیں ہے، اور آپ کا اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر دونوں خاندانوں کو جوڑنے کی خاطر ماموں کے گھر والوں کو بھی مدعو کرنا ایک اچھا اقدام ہے، اگر آپ کے والدین صلح کے لیے رضامند نہ ہوں تو آپ ان کو صلہ رحمی اور صلح کے متعلق مندرجہ ذیل آیتیں اوراحادیث سنائیں اور خاندان کے بااثر لوگوں کے ذریعہ ان کو منانے کی کوشش کریں تاکہ دونوں خاندانوں میں صلح ہوجائے،چناں چہ ارشادِ باری تعالی ہے :
"فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ (1)"(سورةالأَنفال : 1)
ترجمہ :
"سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو۔" (ازبیان القرآن)
دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
" إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (10)"(سورة الحجرات :10)
ترجمہ :
"مسلمان تو سب بھائی ہیں سو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کر ادیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو تا کہ تم پر رحمت کی جائے ".ـ(از بیان القرآن)
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"لو كان بين رجلين من المسلمين أدنى اختلاف فاسعوا في الإصلاح".
یعنی اگر دو آدمیوں کے درمیان معمولی سا اختلاف بھی ہو جائے تو ان کی آپس میں صلح کرنے کی کوشش کرو۔
اسی طرح متعدد احادیث میں صلہ رحمی اور صلح کے فضائل بیان کئے گئے ہیں اور قطع تعلقی پر وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔
مشكاة المصابيح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے :
"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أحب أن يبسط له في رزقه وينسأ له في أثره فليصل رحمه . متفق عليه"
ترجمہ :
"اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت و فراخی اور اس کی موت میں تاخیر کی جائے یعنی اس کی عمر دراز ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرے۔" (بخاری و مسلم )
وفيها ايضا :
"وعن جبير بن مطعم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يدخل الجنة قاطع . متفق عليه"
ترجمہ :
"اور حضرت جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ قطع رحم کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔" (بخاری ومسلم )
وفيها ايضا :
"وعن ابن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس الواصل بالمكافىء ولكن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها . رواه البخاري"
ترجمہ :
"اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کامل صلہ رحمی کرنے والا وہ شخص نہیں ہے جو بدلہ چکائے، بلکہ کامل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی قرابت کو منقطع کیا جائے تو وہ اس قرابت کو قائم رکھے ۔ " (بخاری )
وفيها ايضا :
"وعن عبدالله بن أبي أوفى قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا تنزل الرحمة على قوم فيهم قاطع الرحم. رواه البيهقي في شعب الإيمان"
(كتاب الآداب، باب البر والصلة، ج : 2، ص : 433، رحمانیة)
ترجمہ :
"اور حضرت عبداللہ ابن ابی اوفی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس قوم پر رحمت نازل نہیں ہوتی جس میں ناتا توڑنے والا ہو۔ (بیہقی )
تشریح : "قوم" سے مراد پوری قوم نہیں ہے، بلکہ محض وہ لوگ مراد ہیں جو ناتا توڑنے والے کی مدد و حمایت کریں یا اس کو اپنے ناتے داروں کے ساتھ بد سلوکی کے ذریعہ ناتا توڑنے سے منع نہ کریں۔
یہ بھی احتمال ہے کہ رحمت سے باران رحمت مراد ہو یعنی جس قوم یا جس آبادی کے اندر ناتا توڑنے والا کوئی شخص ہوتا ہے تو ناتا نا توڑے جانے کی نحوست سے اس قوم یا آبادی کو بارش سے محروم رکھا جاتا ہے۔
وفيها ايضا :
"عن أبي أيوب الأنصاري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذاوخيرهما الذي يبدأ بالسلام . متفق عليه"
ترجمہ :
"حضرت ابوایوب انصاری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ” یہ کسی شخص کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے ملنا جلنا چھوڑے رکھے اور صورت یہ ہو کہ ( جب وہ کہیں ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو یہ اپنا منہ ادھر کو پھیر لے اور وہ اپنا منہ دوسری طرف پھیر لے (یعنی دونوں ہی ایک دوسر سے سلام و کلام اور ملاقات سے احتراز کریں) اور ان دونوں میں بہتر شخص وہ ہےجو( خفگی کو دور کرنے کے لئے اور بحالی تعلقات کی خاطر) سلام میں پہل کرے۔“ (بخاری ومسلم)
تشریح : تین دن سے زیادہ کی قید کی بنا پر یہ سمجھا گیا ہے کہ اگر کسی وجہ سے اظہار خفگی کی خاطر تین دن تک ملنا جلنا چھوڑاجائے تو یہ حرام نہیں ہے، کیونکہ انسان کی طبیعت میں غیظ و غضب، غیرت وحمیت اور تندی و بے صبری کا جو مادہ ہے وہ بہر حال اپنا اثر ضرور ظاہر کرتا ہے ،اس لئے اس قدر مدت معاف کر دی گئی ہے، تاکہ انسان کے ان جذبات کی بھی کچھ تسکین ہو جایا کرے اور اس تین دن کے عرصہ میں خفگی و ناراضگی اور بغض در بغض و نفرت کے جذبات بھی ختم ہو جائیں یا کم سے کم ہلکے پڑ جائیں اور صلح و صفائی ہو جائے۔ بہر حال حدیث کی مراد یہ ہے کہ اجتماعی طور پر ایک جگہ رہنے سہنے اور روز مرہ کے باہمی معاملات کی وجہ سے آپس میں تنازع ہو جایا کرتا ہے۔ اور ایک دوسرے سے کوئی شکایت پیدا ہو جانے کی وجہ سے خفگی و نار اضگی کی صورت پیش آجاتی ہے، مثلاً ایک شخص نے کسی کی غیبت کر دی ۔ اس کو برا بھلا کہہ دیا اور یا اس کو اس شخص سے خیر خواہی کی امید تھی مگر اس نے خیر خواہی نہیں کی۔ تو اس طرح کی صورتوں میں اگر آپس میں ناراضگی و خفگی ہو جائے اور ترک ملاقات کی نوبت آجائے تو اس خفگی اور ترک ملاقات کو تین دن سے زیادہ نہیں رہنے دینا چاہئے۔
وفيها ايضا :
"وعن أبي الدرداء قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا أخبركم بأفضل من درجة الصيام والصدقة والصلاة؟قلنا: بلى. قال: إصلاح ذات البين وفساد ذات البين هي الحالقة. رواه أبو داود والترمذي وقال: هذا حديث صحيح"
(كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، الفصل الأول، ج : 2، ص : 441/42)
ترجمہ :
"اور حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ "کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل نہ بتادوں جس کے ثواب کا درجہ ، روزے، صدقے اور نماز کے ثواب سے زیادہ ہے۔" ابو درداء کہتے ہیں کہ ہم نے یہ سن کر عرض کیا کہ ہاں (ضرور بتائیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ” آپس میں دشمنی رکھنے والے دو شخصوں کے درمیان صلح کرانا۔ اس کے بعد فرمایا کہ اور دو آدمیوں کے درمیان فساد و نفاق پیدا کرنا ایک ایسی خصلت ہے جو مونڈنے والی ہے(انسان کے دین کو مونڈ کر صاف کردیتی ہے)، یعنی اس خصلت کی وجہ سے مسلمانوں کے معاملات اور دین میں نقصان و خلل پیدا ہوتا ہے اس روایت کو ترمذی ابو داؤد نے نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔"
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102092
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن