بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وطن اصلی کو چھوڑنے کی نیت کے بعد دوبارہ جانے کی صورت میں قصر یا اتمام کا حکم


سوال

میں لاہور میں پچھلے پندرہ سال سے مقیم ہوں یہاں لاہور میں ہی ملازمت ،اپنا گھر، اور میری ساری فیملی ہے میرے چند رشتہ دار بھی یہاں لاہور میں مقیم ہیں اور آئندہ لاہور ہی میں رہنے کا ارادہ بھی ہے۔جبکہ میرا آبائی ،جدی وطن/علاقہ تلہ گنگ کا ایک گاؤں ہے جہاں میرا سارا خاندان آباد ہے وہاں ہمارا اپنا گھر بھی ہے، جس میں کوئی نہیں رہتا ۔ اور زرعی زمین بھی کچھ ہے جو کہ ہم کاشت نہیں کرتے نہ اس سے کوئی نفع وغیرہ حاصل کرتے ہیں۔اب اگر میں اپنے گاؤں پندرہ دن سے کم رکنے کے ارادے سے جاؤں تو کیا میں وہاں قصر نماز پڑھوں گا یا پوری اور میرا وطن اصلی لاہور ہوگا یا میرا گاؤں ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جب سائل نےاپنے وطنِ اصلی  تلہ گنگ  کو چھوڑنے کی نیت کرلی ہے اور مستقل  طور پر لاہور میں رہائش اختیار کر لی ہے اور اس  کو وطنِ اصلی بنالیا ہےاپنی نیت اور ارادہ سے تلہ گنگ کو وطنیت سے خارج  کردیا  ہے تو اب  سائل جب اپنے آبائی علاقہ تلہ گنگ پندرہ دن سے کم کی نیت سے  جائے گا تو وہاں قصر کی نماز پڑھے گا، اور اگر پندرہ دن یا اس سے زیادہ کی نیت سے جائے گا تو چار رکعت والی فرض نماز پوری پڑھنی ہو گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(الوطن الأصلي يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما."

(باب صلاۃ المسافر،ج: ۲، صفحہ: ۱۳۲، ط: ایچ، ایم، سعید)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے: 

"وفي المحيط: ولو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة، قيل: البصرة لا تبقى وطناً له؛ لأنها إنما كانت وطناً بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطناً له، وقيل: تبقى وطناً له؛ لأنها كانت وطناً له بالأهل والدار جميعاً، فبزوال أحدهما لايرتفع الوطن، كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر. اهـ

 وفي المجتبى: نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار، ثم قال: وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم، فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر".

(باب صلاة المسافر، ج: ۲، صفحہ: ۱۴۷، چ: دار المعرفةبيروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504102037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں