کیا سود کے پیسے سے اپنی بیٹی کے لیے جہیز کا سامان خرید سکتے ہیں؟
بصورتِ مسئولہ سوال میں ذکر کردہ سود کی رقم سے مراد اگر کسی سودی آمدن والے شخص سے حاصل شدہ سودی رقم ہے جو اس نے ثواب کی نیت کے بغیر کسی لڑکی کے جہیز کی تیاری کے لیے بطورِ صدقہ دی ہے تو اگر لڑکی کا باپ یا خود وہ لڑکی مستحقِ زکات ہے تو ان دونوں میں سے جس کو بھی یہ رقم دی جائے وہ اس رقم کا مالک ہوجائےگا، اور وہ اس رقم کو کسی بھی ضرورت میں استعمال کرسکتا ہے۔
اور اگر سودی رقم سے مراد کسی باپ کی اپنی سودی کمائی ہے تو چوں کہ سود کا لینا دینا قطعی نصوص سے حرام ہے، لہذا اس حرام رقم سے بیٹی کو جہیز دینا جائز نہیں ہے۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل (مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ، الشہید:2000ء) میں ہے:
"سوال: اگر غریب آدمی اپنے پیسے بینک میں رکھتا ہے تو اس سے سود کی رقم چھ یا سات سو بنتی ہے، تو کیا وہ آدمی اسے اپنے اوپر استعمال کرسکتا ہے؟ اور اگر نہیں کرسکتا تو کیا پھر اسے اپنی بیٹی کے جہیز کے لیے کوئی چیز خرید سکتا ہے؟
جواب: سود کا استعمال حرام اور گنا ہے، اس سے بیٹی کو جہیز دینا بھی جائز نہیں۔"
(سود کی رقم کا مصرف، ج:7، ص:344، ط:مکتبہ لدھیانوی)
معارف السنن میں ہے:
"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."
(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207201461
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن