ایک شخص نے دس سال پہلے میزان بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا تھا ،اسکے منافع کو اسلامی بینکنگ جانتے ہوئے استعمال کرتا رہا ، اب اس کے علم میں یہ بات آئی ہے کے یہ کوئی اسلامی بینکنگ نہیں ہے بلکہ سود ہے،اب یہ رقم کسی فلاحی ادا رےکو یا فی سبیل اللّٰہ لنگر خانےمیں بغیر ثواب کی نیت کے دے سکتا ہے ؟
واضح رہے کہ جن افراد سے یا ادارے سے سود وصول کیا ہو اگر ان کو لوٹانا ممکن ہو تو اصل افراد کو واپس کرنا شرعًا ضروری ،اور اگرواپس کرنا ممکن نہ ہو تو اس رقم کو فقراء و مساکین میں ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کر دینا ضروری ہے، لہذا صورت مسئولہ میں اگر فلاحی ادا رےیا فی سبیل اللّٰہ لنگر خانےوالے فقراء و مساکین کو ثواب کی نیت کے بغیر تقسیم کرناچاہیں توکرسکتے ہیں۔
فتوی شامی میں ہے:
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."
(باب البیع الفاسد ،مطلب فیمن ورث مالا حراما،ج:5،ص:99،ط:سعید)
المبسوط للسرخسي میں ہے:
''والسبيل في الكسب الخبيث التصدق.''
(كتاب البيوع،أنواع الربا،ج:12،ص:172،ط:مطبعة السعادة،مصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411100822
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن