بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم سے بینک فیس دینا/ ٹیکس دینا/ اور رشوت دینے کا حکم


سوال

 اگر بینک میں سیونگ اکاؤنٹ ہو جس پر مہینہ کے آخر میں بینک منافع دیتا ہے، میرا سوال ہے کہ:

(1): کیا اس سود کی رقم سے بینک والوں کی فیس اور چارجز دیے جا سکتے ہیں؟

(2): کیا اس رقم سے حکومت کا ٹیکس بھی دیا جا سکتا ہے؟

(3): کیا یہ رقم کسی کو دے سکتے ہیں جو حرام رقم کا تقاضا کر رہا ہو جسے حکومت کے اداروں میں یا کوئی جائز کام کے لیے پیسہ مانگتے ہیں،  جس کی آسان مثال رشوت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ از روئے شرع  رائج بینک (خواہ روایتی بینک ہو یا مروجہ غیرسودی بینک ہو) سے کسی بھی طرح تمویلی معاملات کرنا جائز نہیں ہے، بینک  منافع کے نام سے جو کچھ دیتا ہے شرعًا وہ سود کے حکم میں ہے، اور سود کا  لینا  دینا قطعی نصوص  سے  حرام ہے ؛ اس لیے  بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا ہی جائز نہیں ہے، ضرورت پر بینک میں صرف  ایسا اکاؤنٹ کھلوانے کی اجازت ہے، جس میں سود  لینا دینا نہ پڑتا ہو جیسے کرنٹ اکاؤنٹ۔

 اگر کسی نے بینک میں سیونگ اکاؤنٹ  وغیرہ  میں رقم رکھوالی ہو تو اس پر لازم ہے کہ فی الفور وہ اپنی اصل رقم نکلوالے  یا سیونگ اکاؤنٹ کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل ہوسکتا ہے تو اسے کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل کرکے صرف اصل رقم سے استفادہ کرے، اور  سودی لین دین اور اس کا معاہدہ کرنے کے گناہ سے توبہ واستغفار کرے، بہرصورت اصل رقم پر  جو سود ملا ہو ، اس کا وصول کرنا ہی جائز نہیں ہے، اگر کسی نے لاعلمی میں سودی رقم وصول کرلی ہوتو اسے ثواب کی نیت کے  بغیر  غرباء وفقراء میں تقسیم کرنا ضروری ہے،  اپنے ذاتی فائدے کے  لیے ایسے پیسوں کا استعمال جائز نہیں ہے، بصورتِ مسئولہ:

1: سیونگ اکاؤنٹ کے  منافع کی رقم سے بینک کی فیس دینا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ بینک کی فیس ذاتی فائدہ حاصل کرنے کی وجہ سے دی جاتی ہے، اور سود کے  پیسے ذاتی فائدہ حاصل کرنے کے  لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

2: مختلف ٹیکسز کو سودی رقم سے منہا کرنا اور سودی رقم کو اپنے استعمال میں لانا شرعاً جائز نہیں، البتہ  اگر آپ کا اکاؤنٹ سرکاری بینک میں ہے، اور بینک سال میں جو ٹیکس کاٹتا ہے، اگر وہ سرکاری کھاتے کا ٹیکس ہو ، اور  غیر منصفانہ اور ظالمانہ  ہو تو بوقتِ ضرورت اسے منہا کرسکتے ہیں، البتہ اکاؤنٹ ہولڈر کو فراہم کردہ سہولت (جیسے ڈیبٹ کارڈ کی سالانہ فیس، چیک بک کے چارجز  وغیرہ یاکسی دیگر خدمت )  کے عوض میں اگر بینک کٹوتی کرتا ہو تو ایسی کٹوتی کو سودی رقم سے منہا کرنا شرعًا جائز نہ ہوگا۔

نیز واضح رہے کہ ٹیکس کی کٹوتی  کی غرض سے سیونگ اکاؤنٹ کھلوانے کی قطعاً اجازت نہیں ہے، مذکورہ حکم (سرکاری بینک کے سیونگ اکاؤنٹ سے ٹیکس کی کٹوتی کی گنجائش کا حکم) اس صورت کا ہے کہ لاعلمی میں یا غیر اختیاری طور پر سیونگ اکاؤنٹ کھول دیا گیا اور اس سے ٹیکس کی کٹوتی کردی گئی ہو، اور ٹیکس غیر منصفانہ ہو۔

3:  مذکورہ رقم سے کسی بھی حکومتی محکمے کے افسر وغیرہ کو رشوت دینا بھی جائز  نہیں ہے؛ کیوں کہ سودی رقم مال خبیث ہے، اور مال خبیث یا تو مالک (یعنی بینک/حکومت)  کو لوٹانا ضروری ہے، اگر وہ ممکن نہ ہو تو ثواب کی نیت کےبغیر صدقہ کرنا ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه.

(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:385، ط:ايج ايم سعيد)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144202200325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں