بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی قرضے سے اپنا قرض وصول کرنا جائز ہے یا نہیں؟


سوال

 زید عمرو کامقروض ہے، اب زید اپنی زمین کے کاغذات بینک میں جمع کرواکر قرضہ لے رہا ہے،  تو پوچھنا یہ ہے کہ عمرو زید سے اپنا قرضہ اسی بینک والے لون سے وصول کرسکتا ہے کہ نہیں ؟

جواب

سود  پر قرض لینا یا دینا    دونوں  قرآن و حدیث کی قطعی نصوص سے حرام ہیں، حدیثِ  مبارک میں  سودی لین دین کرنے والوں پر لعنت کی  گئی ہے، اور بینک  سے   ملنے والا قرض سراسر سود پر مشتمل ہوتا ہے خواہ کسی ضمانت کے ساتھ ہو یا اس کے بغیر،اس لیے  زید  (مقروض) کوشش کرکے اپنے کسی جاننے والے کو راضی کریں جو زید کو اللہ کی رضا کے لیے قرض دے دے اور اُس سے زید اُسی قدر  وقت مقرر کرنے کی کوشش کرے  جتنے عرصے میں زید کو اپنے اوپر اعتماد ہو کہ اس عرصے میں   اس کا قرضہ واپس کرسکےگا، تاہم اگر زید  عمرو سے وہ بینک والا لون وصول کرتا ہے تو اس  کے لیے وصول کرنا جائز ہے،لیکن اگر عمرو  زید کو مہلت دے تاکہ وہ سودی لون سے بچ جائے تو یہ عمرو کے لیے باعث اجر وثواب ہوگا۔

"﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا الله َ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ ."[البقرة : 278 إلى 280]

ترجمہ:" اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے. اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔" (بیان القرآن )

"ما كان مبادلة مال بغير مال كالنكاح والخلع على مال أو كان من عقود التبرعات كالهبة والقرض أو من التقييدات كعزل الوكيل والحجر على الصبي من التجارة فإنه يصح مع اقترانه بالشرط الفاسد ويلغو الشرط".

(مرشد الحيران: كتاب العقود على العموم، الباب الثاني ، الفصل الثالث  ص:38، ط. المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق، الطبعة  الثانية: 1308 هـ - 1891م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں