بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے سودی معاملات کی لکھت پڑت کا حکم


سوال

 میں ایک ایسی کمپنی میں بطور "مینیجر ٹیکس" ملازمت کرتا ہوں کہ جو دیگر کمپنیوں کو حکومت کی طرف سے عائد کردہ ٹیکس کے قوانین سے آگاہ بھی کرتی ہے اور ساتھ ہی ان کمپنیوں کو ان قوانین پر عمل درآمد کرنے کی عملی مدد بھی کرتی ہے ، ٹیکس کے بہت سے قوانین میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ ایک کمپنی اپنی کسی دوسری "متعلقہ کمپنی" کے ساتھ" مارکیٹ ریٹ" پر ہی مالی معاملہ کرسکتی ہے  "متعلقہ کمپنی" کی مثالیں یہ ہیں کہ ایک کمپنی میں ایک بھائی اور دوسری کمپنی میں دوسرا بھائی مالک ہے ، اسی طرح ایک کمپنی میں میاں اور دوسری کمپنی میں بیوی مالک ہے ،اس قانون کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب ایک متعلقہ کمپنی اپنی دوسری متعلقہ کمپنی کو قرض دیتی ہے تو اس قرض پر سود وصول کرتی ہے کیونکہ مارکیٹ میں بغیر سود کے قرضے نہیں دیے جاتے ، بالفرض اگر کوئی کمپنی "بغیر سود" کے قرض دے بھی دے تو حکومت قانونی کارروائی اور جرمانہ عائد کر سکتی/کرتی ہے،  یہ قانون پاکستان کے ساتھ ساتھ تقریباً تمام مسلمان اور دیگر ممالک میں بھی رائج ہے، اس قانون سازی کا مقصد یہ ہے کہ جب سود کی کمائی کی صورت میں ایک کمپنی پیسے وصول کرے گی تو حکومت اس کمائی پر ٹیکس وصول کر کے اپنا سرکاری خزانہ بھرے گی کیونکہ ٹیکس تب ہی ممکن ہے کہ جب کوئی کمائی/انکم ہو، اگر کمائی/انکم نہیں تو ٹیکس نہیں جس کی وجہ سے حکومت کو مالی نقصان ہوتا ہے ،بطور "مینیجر ٹیکس" میری پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ میں بالا درجہ ٹیکس کا قانون لکھتا ہوں (یعنی ایک کمپنی کو سود کے ساتھ قرض دینا ہوگا) اور دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اس بات کی تحقیق کرتا ہوں کہ مارکیٹ میں قرض کس انٹرسٹ ریٹ/شرح سود پر دیا جا رہا ہے، اور پھر یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ قانون کے تحت ایک کمپنی کو کتنا سود وصول کرنا ہوگا اور پھر یہ دستاویز اپنے سینیر کو نظر ثانی کے لیے پیش کرتا ہوں جس کی تصدیق کے بعد میں یہ متعلقہ کمپنی کو "ای میل" کر دیتا ہوں اور میری اس "ای میل" کی بنیاد پر ایک متعلقہ کمپنی اپنی دوسری متعلقہ کمپنی سے سودی معاملہ کرتی ہے۔

یہ سوال ہے کہ میرا مندرجہ بالا کام کرنا شرعا جائز ہے کہ نہیں جبکہ یہ کام میرے بہت سے کاموں میں سے ایک کام ہے ۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کا اگر چہ سارا کام سودی لین دین اور اس کی کتابت کا نہیں ہے،لیکن جو سودی معاملات ہیں اس سے متعلق جتنے بھی کام ہیں ان کاموں کا کرناسائل کے لیےناجائز اور حرام ہے، اور اس کام کی اجرت اور تنخواہ بھی حرام ہے۔ حدیث شریف میں سودی معاملات کرنے والے، اس کے لکھنے والے، اس کے گواہ بننے والوں کے متعلق بہت سخت وعید وارد ہوئی ہے۔لہذااسی ادارے میں رہتے ہوئے خود کو سودی اندراجات سے کنارہ کش کرسکتے ہیں تو ایسا کرلیجیے۔  ورنہ سچی لگن کے ساتھ مکمل جائز ملازمت تلاش کریں، جب تک مکمل جائز اور حلال ذریعہ آمدن نہ ملے اس وقت تک استغفار کرتے ہوئے ملازمت جاری رکھیں، جیسے ہی مکمل جائز کام مل جائے تو اسے ترک کردیں اور اس سودی ملازمت سے ملنے والی تنخواہ میں سے صرف بقدر ضرورت استعمال کریں زائد رقم بلانیت ثواب غرباء میں تقسیم کردیں۔  

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا محمد بن الصباح وزهير بن حرب وعثمان بن أبي شيبة. قالوا: حدثنا هشيم. أخبرنا أبو الزبير عن جابر، قال:‌لعن ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء ."

(صحیح مسلم ، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ج:۳، صفحہ: ۱۲۱۹، ط: دار إحیا التراث العربي)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا عبد الرزاق أنبأنا إسرائيل عن سماك عن عبد الرحمن بن عبد الله عن ابن مسعود قال: لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - َآكل الربا،،وموكلَه، وشاهديه، وكاتبه".

(مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج: ۴، صفھہ: ۱۴، رقم الحدیث: دار الحديث - القاهرة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101548

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں