بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی مال پر قربانی کا حکم


سوال

ایک شخص کا سارا مال سود کا ہے ،ایسے شخص پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر واقعۃ کسی کے پاس سارا مال سود کا ہے تو ایسے شخص پر قربانی واجب نہیں ہے، نیز سود کے مال کا حکم یہ ہے کہ:اسے اصل مالک کی طرف لوٹا دیا جائے٬ اور اگر اصل مالک معلوم نہ ہو، تو اسے ثواب کی نیت کیے بغیر غرباء وفقراء میں تقسیم کردیا جائے،اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان كل واحد منهم صبياً أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانياً ونحو ذلك لايجوز للآخرين أيضاً، كذا في السراجية. ولو كان أحد الشركاء ذمياً كتابياً أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو يريد القربة في دينه لم يجزئهم عندنا؛ لأن الكافر لايتحقق منه القربة، فكانت نيته ملحقةً بالعدم، فكأنه يريد اللحم، والمسلم لو أراد اللحم لايجوز عندنا".

(كتاب الأضحية، الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا،ج: ۵، صفحہ: ۳۰۴، ط: دار الفكر)

الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ میں ہے:

"والمال الحرام كله خبث لا يطهر، والواجب في المال الحرام رده إلى أصحابه إن أمكن معرفتهم وإلا وجب إخراجه كله عن ملكه على سبيل التخلص منه لا على سبيل التصدق به، وهذا متفق عليه بين أصحاب المذاهب. قال الحنفية: لو كان المال الخبيث نصابا لا يلزم من هو بيده الزكاة؛ لأنه يجب إخراجه كله فلا يفيد إيجاب التصدق ببعضه".

(زكاة المال الحرام، ۲۳، صفحہ: ۲۴۹، ط: دارالسلاسل - الكويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100802

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں