بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار کے لیے کسی سے سودی قرضہ لینے کا حکم


سوال

 اگرکسی کا کاروبار اور ذریعۂ معاش نہ ہو اور وہ پڑھ رہا ہو  تو وہ سود کی رقم  کاروبار اور پڑھائی کے لیے قرض لے سکتا ہے، اور جب پڑھائی ختم ہوجائےاور   کاروبار چل جائے تو جس بندے سے سود لیا ہو اس کو ادا کرے، تو  اس کاروبار سے حاصل شدہ منافع کا کیا حکم ہے ؟

جواب

سودی لین دین کرنا حرام ہے، لہذا   کاروبار کی خاطر سودی قرض لینا جائز نہیں، قرآن کریم اور سنتِ مطہرہ میں سودی لین دین کرنے والوں کے بارے میں کافی وعیدیں آئی ہیں، سودی معاملات کرنے والوں سے اللہ تعالی اور اس کے رسول کا اعلانِ جنگ ہے، سودی لین دین سے انسان کے مال سے برکت اٹھ جاتی ہے، سودی معاملے سے بظاہر مال کی کثرت معلوم ہوتی ہے، لیکن انجامِ کار تباہی اور بربادی ہے، لہذا  سودی معاملہ سے اجتناب کیا جائے اور کسی سے بلاسود قرضہ لینے کی کوشش کرے اور اللہ تعالی سے اس سلسلے میں دعائیں بھی کرتا رہے، جب انسان حرام سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لیے حلال کی راہیں آسان فرمادیتے ہیں۔

قرآنِ مجید میں ہے:

" يمحق الله الربا ويربي الصدقات والله لا يحب كل كفار أثيم" .

ترجمہ:اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے کسی کفر کرنے والے کو ( اور) کسی گناہ کے کام کرنے والے کو۔

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:276، ترجمہ:بیان القرآن)

قرآنِ مجید میں ہے:

" يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا إن كنتم مؤمنين فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من الله ورسوله وإن تبتم فلكم رؤس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة وأن تصدقوا خير لكم إن كنتم تعلمون."

" ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو۔  پھر اگر تم (اس پر عمل) نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے (یعنی تم پر جہاد ہوگا) اور اگر تم توبہ کرلو گے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جاویں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر کوئی ظلم کرنے پائے گا۔اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہےآسودگی تک، اور یہ کہ معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم کو اس (اس کے ثواب کی) خبر ہو۔"

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:278/ 279/ 280، ترجمہ:بیان القرآن)  

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا حجاج، حدثنا شريك، عن الركين بن الربيع، عن أبيه، عن ابن مسعود، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الربا وإن كثر، فإن عاقبته تصير إلى قل."

(مسندِ احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة، مسند عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه، رقم الحدیث:3754، ج:6، ص:297، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)

"ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سود اگرچہ زیادہ ہو، بہرحال اس کا انجام قلت ہی ہے۔"

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144407100569

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں