بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ کے گوشت کو قبرستان میں پھینکنا


سوال

صدقہ کا گوشت یا اور کوئی چیز قبرستان میں پھینکنا کیسا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں صدقہ کے گوشت کا حکم یہ ہے کہ اگر ’’صدقہ‘‘ سے مراد  واجب صدقہ ہو تو جو لوگ صاحبِ  نصاب نہ ہوں اور ان کے لیے زکوۃ لینا جائز ہو ان کے لیے صدقہ (واجبہ) کا گوشت کھانا جائز ہے۔  اور ’’صدقہ نافلہ‘‘ (عام صدقہ) مراد ہو تو اس کا گوشت ہر شخص کھا سکتا ہے، خواہ وہ مال دار ہو  یا  غریب ۔لہذا صدقہ کے گوشت کو قبرستان میں پھینک کر ضائع کرنا جائز نہیں ہے بلکہ اسے  مستحق اور غریب افراد میں تقسیم کر دیا جائے، تاکہ اللہ کی نعمت کی  ناشکری نہ ہو  اور اجروثواب مل سکے۔ 

نیزقبرستان میں  گندگی وغیرہ  پھینکنے سے قبرستان کی بے حرمتی ہوتی ہے، جبکہ اسلام ہمیں قبروں کے احترام کا درس دیتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا عثمان، حدثنا جرير، عن منصور، عن الشعبي، عن وراد مولى المغيرة بن شعبة، عن المغيرة بن شعبة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن الله حرم عليكم: عقوق الأمهات، ووأد البنات، ومنع وهات، وكره لكم قيل وقال، وكثرة السؤال، وإضاعة المال".

(صحیح البخاری، باب ما ينهى عن إضاعة المال، ج: 3، صفحہ: 120، رقم الحدیث: 2408، ط: دار طوق النجاة)

وفیہ ایضاً:

" حدثنا جرير، عن سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لأن يجلس أحدكم على جمرة فتحرق ثيابه، فتخلص إلى جلده، خير له من أن يجلس على قبر»".

(صحیح مسلم، النهي عن الجلوس على القبر والصلاة عليه، ج: 2، صفحہ: 667، رقم الحدیث: 971، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے: 

"وكما لا يجوز صرف الزكاة إلى الغني لا يجوز صرف جميع الصدقات المفروضة والواجبة إليه كالعشور والكفارات والنذور وصدقة الفطر لعموم قوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء} [التوبة: 60] وقول النبي صلى الله عليه وسلم «لا تحل الصدقة لغني» ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث لكونه غسالة الناس لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، ولا يجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة والحاجة للفقير لا للغني. وأما صدقة التطوع فيجوز صرفها إلى الغني؛ لأنها تجري مجرى الهبة".

(کتاب الزکاۃ، فصل الذي يرجع إلى المؤدى إليه، ج: 1، صفحہ: 47، ط: دارالكتب العلمية)

البحرالرائق شرح كنز الدقائق میں ہے: 

"وقيد بالزكاة؛ لأن النفل يجوز للغني كما للهاشمي، وأما بقية الصدقات المفروضة والواجبة كالعشر والكفارات والنذور وصدقة الفطر فلا يجوز صرفها للغني لعموم قوله - عليه الصلاة والسلام «لا تحل صدقة لغني» خرج النفل منها؛ لأن الصدقة على الغني هبة كذا في البدائع وأما صدقة الوقف فيجوز صرفها إلى الأغنياء إن سماهم الواقف، وإلا فلا؛ لأنها من الصدقة الواجبة كذا في البدائع".

(کتاب الزکاۃ، باب مصرف الزكاة، ج: 2، صفحہ: 263، ط:  دارالكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100371

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں