بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودامکمل ہونےکےبعدشرط لگانےکاحکم


سوال

میرے بھائی نےایک شخص کومکان فروخت کیا،پیمائش ،قیمت وغیرہ سب فائنل کی ،اورطےپایاکہ چھ مہینےکےبعد پیمنٹ کرےگا،کچھ دنوں کےبعد خریدار نےآدھا گھر گرا کر،اس کا سامان بیچا ،پھر کچھ عرصہ  کے بعد کہاکہ زمین کم ہے،پیمائش دوبارہ کریں گے، لیکن دوبارہ پیمائش پربھی دونوں راضی نہیں ہوئے،توبھائی نےاس سےکہا:کہ اگر مقررہ وقت میں پیمنٹ نہیں کی، توہمارا معاملہ ختم ہوگا،جب بھی دوبارہ سوداکرناہوگا،توالگ قیمت پر ہوگا،اسی طرح کافی ٹائم کےبعد اس خریدارکا انتقال ہوگیا،اور اس کے بعد مکان کی کچھ لکڑیاں میرے بھائی نےبیچ دی ،اور یہ مسئلہ ابھی تک پڑاہےاس بات کو تقریباً 10 سال ہوگئے،برائےمہربانی! راہنمائی فرمائیں کہ اس کاشرعی فیصلہ کیسےہوگا،جوسامان اس بندےنےبیچا اس کےپیسے،اورخریداری کےپیسے،کچھ بھی  بھائی کونہیں دیا،اور جولکڑی بھائی نے بیچی اس کےپیسےبھائی کےپاس ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرسائل کےبھائی اورخریدارکےدرمیان سودامکمل ہوگیاتھا،اوراُس وقت کوئی شرط نہیں لگائی گئی تھی،توسودامکمل ہونےکےبعدسائل کابھائی اُس گھرکی قیمت کاحق دارہوا،اورخریدارگھرکامالک ٹھہرا؛لہذاسائل کےبھائی کےلیےمقررہ تاریخ پرپیسےنہ ملنےپرسوداختم کرناشرعاًجائزنہیں ہے،البتہ اگرخریداراورسائل کابھائی مقررہ وقت پرپیسےنہ ملنےپرسوداختم کرنےپرراضی ہوئےہوں ،اورپھرخریدارنےمقررہ وقت پرپیسےنہیں دییےہوں،تومذکورہ مکان واپس سائل کےبھائی کاشمارہوگا؛لہذاجس صورت میں مکان سائل کےبھائی کانہیں ہے،اُس صورت میں سائل کےبھائی کےلیےاُس کی لکڑیوں کوفروخت کاحق نہیں ہے،اورلکڑیوں سےحاصل شدہ رقم خریدارکےورثاءکوواپس کرناضروری ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا باع على أنه إن لم ينقد الثمن إلى ثلاثة أيام فلا بيع بينهما فالبيع جائز وكذا الشرط هكذا ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في الأصل وهذه المسألة على وجوه إما أن لم يبين الوقت أصلا بأن قال على أنك ‌إن ‌لم ‌تنقد ‌الثمن فلا بيع بيننا أو بين وقتا مجهولا بأن قال على أنك ‌إن ‌لم ‌تنقد ‌الثمن أياما وفي هذين الوجهين العقد فاسد وإن بين وقتا معلوما إن كان ذلك الوقت مقدرا بثلاثة أيام أو دون ذلك فالعقد جائز عند علمائنا الثلاثة رحمهم الله تعالى وإن بين المدة أكثر من ثلاثة أيام قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - البيع فاسد وقال محمد - رحمه الله تعالى - البيع جائز كذا في المحيط فإن نقد في الثلاث جاز في قولهم جميعا كذا في الهداية.ولو أعتقه المشتري في الأيام الثلاثة قبل أن ينقد الثمن نفذ إعتاقه لأن هذا البيع بمنزلة شرط الخيار للمشتري ولو مضت الأيام الثلاثة ولم ينقد الثمن فالصحيح أنه يفسد ولا ينفسخ."

(كتاب البيوع،الباب السادس في خيار الشرط،الفصل الأول فيما يصح منه وما لا يصح،٣٩/٣،ط:ماجدية)

  وفیہ ایضاً:

"وشرط صحة الإقالة ‌رضا ‌المتقائلين والمجلس وتقابض بدل الصرف في إقالته."

(كتاب البيوع،الباب الثالث عشر في الإقالة،157/3،ط:ماجدية)

الدرالمختارمیں ہے:

"(فإن اشترى) شخص شيئا (على أنه) أي المشتري (إن لم ينقد ثمنه إلى ثلاثة أيام فلا بيع صح) استحسانا خلافا لزفر، فلو لم ينقد في الثلاث فسد فنفذ عتقه بعدها لو في يده فليحفظ. (و) إن اشترى كذلك (إلى أربعة) أيام (لا) يصح خلافا لمحمد. (فإن نقد في الثلاثة جاز) اتفاقا؛ لأن خيار النقد ملحق بخيار الشرط."

(كتاب البيوع،باب خيارالشرط،٥٧١/٤،ط:سعيد)

تبیین الحقائق میں ہے:

"(ويلزم بإيجاب وقبول)(قوله في المتن ويلزم) أي ينعقد البيع انعقادا لازما. اهـ. عيني."

(كتاب البيوع،3/4، ط:المطبعة الكبري الأميرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما الرابع، وهو شرائط اللزوم بعد الانعقاد والنفاذ فخلوه من الخيارات الأربعة المشهورة وباقي الخيارات الآتية في أول باب خيار الشرط."

(كتاب البيوع،مطلب شرائط البيع،505/4، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا حصل الإيجاب والقبول لزم البيع ولا خيار لواحد منهما إلا من عيب أو عدم رؤية كذا في الهداية ولا يحتاج في تمام العقد إلى إجازة البائع بعد ذلك وبه قال العامة وهو الصحيح كذا في النهر الفائق."

(كتاب البيوع،الباب الثاني فيمايرجع إلي انعقادالبيع،8/3،ط:ماجدية)

الدرمع الردمیں ہے:

"(اشترى شيئا وقبضه ومات مفلسا قبل نقد الثمن فالبائع ‌أسوة ‌للغرماء. و) عند الشافعي - رضي الله عنه - هو أحق به كما (لو لم يقبضه) المشتري (فإن البائع أحق به) اتفاقا. ولنا قوله: - عليه الصلاة والسلام - «إذا مات المشتري مفلسا فوجد البائع متاعه بعينه فهو ‌أسوة ‌للغرماء» شرح مجمع العيني.(قوله: ومات مفلسا) أي ليس له مال يفي بما عليه من الديون سواء فلسه القاضي أو لا. (قوله: فالبائع ‌أسوة ‌للغرماء) أي يقتسمونه ولا يكون البائع أحق به درر."

(كتاب  ا لبيوع،564/4،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں