بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سخت مجبوری میں سود لینا


سوال

 کیا سخت مجبوری میں سود لے سکتے ہیں؟

جواب

سود لینا اور دینا دونوں حرام ہیں،اگر کسی کو سخت مجبوری اور محتاجی ہو تو بھی اس کے لیے سود لینے کی گنجائش نہیں ہے، البتہ اگر کسی کی مجبوری اس انتہا کو پہنچ چکی ہو کہ گزارے کی کوئی بھی صورت نہ ہو تو اس کے لیے ایسے شخص یا ادارے سے قرض لینے کی اجازت ہے جو سود کے بغیر قرض نہ دیتاہو، اس صورت میں  گناہ سود پر قرض دینے والے کو ہوگا۔نیز ایسی صورت میں بھی بہتر ہے کہ بجائے سود پر قرض لینے کے، کوئی چیز ادھار پرلےلے، اور مارکیٹ میں اس کو  نقد بیچ  کر اپنا کام پور کرلے، اور بعد میں ادھار ادا کردے۔ 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 137):
"وفي القنية  من الكراهية: لا بأس بالبيوع التي يفعلها الناس للتحرز عن الربا ثم رقم آخر هي مكروهة ذكر البقالي الكراهة عن محمد، وعندهما لا بأس به، قال الزرنجري خلاف محمد في العقد بعد القرض أما إذا باع ثم دفع الدراهم لا بأس بالاتفاق. اهـ. وفي القنية من الكراهية: يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح اهـ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں