بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی معاملہ کرنے والے سے دوکان کرایہ پر لینے کا حکم


سوال

کیا سودی معاملہ  کرنے  والے   سے دوکان کرایہ پر  لینا جائز   ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ سودی کمائی کرنے والے سے دوکان  کسی اور  شخص کے لیے کرایہ  پر لینا جائز ہے، اور کرایہ پر لینے والے شخص کے لیے اس دوکان کو بطور کرایہ چلاکر اس سے آمدنی حاصل کرنا بھی جائز ہے،   البتہ اگر اس کے بجائے  کوئی اور دوکان کرایہ پر لے لے تو  زیادہ بہتر ہے۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية )  میں ہے:

"إذا تصرف في المغصوب و ربح فهو على وجوه: إما أن يكون يتعين بالتعيين كالعروض أو لايتعين كالنقدين فإن كان مما يتعين لايحل له التناول منه قبل ضمان القيمة وبعده يحل إلا فيما زاد على قدر القيمة و هو الربح فإنه لايطيب له و لايتصدق به وإن كان مما لايتعين فقد قال الكرخي: إنه على أربعة أوجه إما إن أشار إليه ونقد منه أو أشار إليه ونقد من غيره أو أطلق إطلاقًا ونقد منه أو أشار إلى غيره ونقد منه وفي كل ذلك يطيب له إلا في الوجه الأول وهو ما أشار إليه ونقد منه قال مشايخنا لا يطيب له بكل حال أن يتناول منه قبل أن يضمنه وبعد الضمان لا يطيب الربح بكل حال وهو المختار والجواب في الجامعين والمضاربة يدل على ذلك واختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام." 

(كتاب الغصب، الباب الثامن فى تملك الغاصب والانتفاع به، ج:5، ص:141، ط:مكتبه رشيديه) 

فقط والله  اعلم 


فتوی نمبر : 144211201438

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں