بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سبحان اللہ، رحمان اللہ نام رکھنا / زکوٰۃ کی رقم دینے کے بعد واپس لینے کا حکم


سوال

۱۔سبحان اللہ نام رکھنا کیسا ہے؟

۲۔ رحمان اللہ نام رکھنا کیسا ہے؟

۳۔  زکات کی رقم ادائیگی کے لئے دینے کے بعد واپس لینا کہ مجھے ابھی ایمرجنسی میں ضرورت ہے، بعد میں زکات دے دوں گا، کیا اس طرح کر سکتے ہیں؟

جواب

۱۔ ’’سبحان‘‘  کے معنی  کسی کو تمام عیوب اور نقائص سے پاک ٹھہرانا یا بتانا ہے،’’سبحان‘‘ اللہ تعالیٰ کے لائقِ شان ہے، اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور  کے بارے میں  ’’سبحان‘‘  نہیں کہا جاسکتا؛ لہٰذا ’’سبحان‘‘ یا محمد سبحان اللہ‘‘  نام رکھنا درست نہیں ہے، بہتر یہی ہے کہ انبیائے کرام علیہم  الصلاۃ والسلام، صحابہ کرام رضوان  اللہ علیہم اجمعین یا اولیاءِ کرام رحمہم اللہ کے ناموں میں سے یا کوئی اچھا بامعنی نام  کا انتخاب کرلیا جائے۔

۲۔ ’’رحمان‘‘ کامعنیٰ ہے:’’بڑا مہربان‘‘۔

(ر، ح، م، ص: 609، ط: ادارہ اسلامیات)

اور یہ اللہ تعالیٰ کے ان خاص صفاتی ناموں میں سے ہے، جو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہے،اور ’’رحمان اللہ‘‘ کا معنیٰ ہے :’’ اللہ تعالیٰ کی مہربانی‘‘۔

چوں کہ لفظ ’’اللہ‘‘ اور لفظ’’رحمٰن‘‘دونوں ذاتِ باری کے ساتھ خاص ہے، ایک ذاتی نام ہے، اور دوسرا صفتِ خاص؛ اسی لیے یہ نام  نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے بجائے’’عبدالرحمن‘‘ نام رکھا جائے؛ کیوں کہ یہ نام اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ ناموں میں سے ایک ہے۔

۳۔  صورتِ مسئولہ میں اگر زکوٰۃ کی رقم مستحقِ زکوٰۃ کو دینے کےلیے کسی کو وکیل بنایاتھا، اور پھر اس سے مذکورہ مجبوری کی بناپر واپس لےلی،کہ بعد میں اداکردے گا تو یہ جائز ہے، لیکن اگر کسی نے مستحقِ زکوٰۃ کو زکوٰۃ کی رقم دے دی تھی، اور اسے مالک بنادیا تھا، تو اب اس کےلیے مالک (مستحقِ زکوٰۃ) کی اجازت کے بغیر وہ رقم واپس لینا شرعاً درست نہیں ہے؛ کیوں کہ وہ رقم اب اس کی ملکیت ہوچکی ہے، اور کسی کی مملوکہ رقم کو اس کی اجازت کے بغیر نہیں لیا جاسکتا، ہاں مذکورہ صورت میں زکوٰۃ ادا کرنے والا  مستحقِ زکوٰۃ سے یہ رقم بطورِ قرض اس  کی اجازت و رضامندی سے واپس لے  لے، اور پھر مذکورہ رقم بطورِ قرض بعد میں ادا کردے، تو یہ درست ہے۔

تفسير قرطبی میں ہے:

"قوله تعالى: (سبحان) " سبحان" اسم موضوع موضع المصدر، وهو غير متمكن، لأنه لايجري بوجوه الإعراب، ولاتدخل عليه الألف واللام، ولم يجر منه فعل، ولم ينصرف لأن في آخره زائدتين، تقول: سبحت تسبيحاً وسبحاناً، مثل كفرت اليمين تكفيراً وكفراناً. ومعناه التنزيه والبراءة لله عز وجل من كل نقص. فهو ذكر عظيم لله تعالى لايصلح لغيره، فأما قول الشاعر: أقول لما جاءني فخره ... سبحان من علقمة الفاخر فإنما ذكره على طريق النادر. وقد روى طلحة بن عبيد الله الفياض أحد العشرة أنه قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ما معنى سبحان الله؟ فقال:" تنزيه الله من كل سوء". والعامل فيه على مذهب سيبويه الفعل الذي من معناه لا من لفظه، إذ لم يجر من لفظه فعل، وذلك مثل قعد القرفصاء، واشتمل الصماء، فالتقدير عنده: أنزه الله تنزيها، فوقع" سبحان الله" مكان قولك تنزيه."

(سورة الإسراء (١٧): آية: ١، ج: 10، ص: 204، ط: دار الكتب المصرية) 

لسان العرب میں ہے:

"ومعناه عند أهل اللغة ذو الرحمة التي لا غاية بعدها في الرحمة، لأن فعلان بناء من أبنية المبالغة ..... ومعناه عند أهل اللغة ذو الرحمة التي لا غاية بعدها في الرحمة، لأن فعلان بناء من أبنية المبالغة."

(فصل الراء المهملة، ج: 12، ص: 231، ط: دار صادر)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، ج: 4، ص: 61، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وأما صفتها: فإنها من العقود الجائزة الغير اللازمة حتى ملك كل واحد من الوكيل والموكل العزل بدون صاحبه كذا في النهاية."

(كتاب الوكالة، الباب الأول، ج: 3، ص: 567، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں