بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صبح اور شام كے اذکار سے متعلق ایک روایت کی تحقیق


سوال

عمل اليوم والليلة لابن السني میں ہے:

"حدثني عبيد الله بن شبيب بن عبد الملك، عن يزيد بن سنان، حدثنا عمرو بن الحصين، حدثنا إبراهيم بن عبد الملك، عن قتادة، عن سعيد بن أبي الحسن، عن ابن عباس، رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قال إذا أصبح: اللهم إني أصبحت منك في نعمة وعافية وستر، فأتم علي نعمتك وعافيتك وسترك في الدنيا والآخرة، ثلاث مرات إذا أصبح وإذا أمسى، كان حقا على الله عز وجل أن يتم عليه نعمته."

اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے  نخب الافکار میں کلام کیا ہے اور غالبًا اخیر میں لکھا ہے کہ و اللہ مستعان، تو کیا یہ حدیث ہے؟ اور قابلِ عمل ہے؟

جواب

مذکورہ روایت کو امام ابن السنی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب"عمل اليوم واللية"  میں اور امام نووی نے"الأذکار"میں ذکر کیا ہے۔

"عمل اليوم واللیلة"میں ہے:

"حدثني عبيد الله بن شبيب بن عبد الملك، عن يزيد بن سنان، حدثنا عمرو بن الحصين، حدثنا إبراهيم بن عبد الملك، عن قتادة، عن سعيد بن أبي الحسين، عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قال إذا أصبح: اللهم إني أصبحت منك في نعمة وعافية وستر، فأتم علي نعمتك وعافيتك وسترك في الدنيا والآخرة، ثلاث مرات إذا أصبح وإذا أمسى، كان حقا على الله عز وجل أن يتم عليه نعمته."

(عمل اليوم والليلة، باب ما يقول إذا أصبح، ص: 52، رقم: 55، دار القبلة للثقافة الإسلامية جدة)

اس حديث كو نقل كرنے کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"قلت: أخرجه ابن السني من رواية عمرو بن الحصين، عن إبراهيم بن عبد الملك، عن قتادة، عن سعيد بن أبي الحسين، عن ابن عباس. وعمرو بن الحصين متروك باتفاقهم، واتهمه بعضهم بالكذب، والله المستعان."

یعنی اس حدیث میں موجود راوی عمرو بن الحصین محدثین کے نزدیک بالاتفاق متروک ہے، اور بعض محدثین نے اس کو متہم بالکذب  کہا ہے (یعني اس پر  حدیث کے علاوہ جھوٹ کی تہمت بھی لگائی ہے)۔ 

(نتائج الأفكار، باب مايقال عند الصباح والمساء، ج: 2 ،ص: 411 ،ط: دار ابن كثير)

تهذيب الكمال في أسماء الرجال ميں ہے:

"قال: أبو حاتم: هو ذاهب الحديث. وقال أبو زرعة: ليس هو في موضع يحدث عنه، وهو واهي الحديث. وقال الأزدي: ضعيف جدا يتكلمون فيه. وقال الدارقطني: متروك."

(تهذيب الكمال في أسماء الرجال، من اسمه عمرو، ج: 21، ص: 587-589، ط: مؤسسة الرسالة بيروت)

اسی طرح سند میں موجود راوی"ابراهيم بن عبد الملك" کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"عن قتادة، له أوهام."

یعني ابراہیم بن عبدا لملک کو اکثر اوقات حدیث بیان کرتے ہوئے وہم ہو جاتا تھا۔

(ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين، حرف الألف ،إسم إبراهيم، ص: 17، رقم: 210، ط: مكتبة النهضة الحديثة مكة)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کے لیے ایک اور روایت کو بطور شاہد پیش کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں:

"حدثنا حبيب بن أبي حبيب، ثنا هشام بن سعد، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح، فسمعته دعا بهذا الدعا: (اللهم إني أصبحت منك في نعمة وعافية فأتم علي نعمتك وعافيتك، وارزقني شكرك، اللهم بنورك اهتديت، وبفضلك استغنيت، وبنعمتك أصحبت وأمسيت."

(تنائج الأفكار، باب ما يقال عند الصباح والمساء، ج: 2، ص: 413، ط: دار ابن كثير)

البته اس روايت ميں موجود راوی "حبیب بن ابی حبیب "کے بارے میں ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ راوی محدثین کے نزدیک  متروک ومردود ہے، جب کہ بعض محدثین نے تو اس پر جھوٹ کا الزام بھی لگایا ہے۔

چناچہ وہ لکھتے ہیں:

"هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه بهذا اللفظ، ورواته موثقون إلا حبيب بن حبيب، فإنه متروك، ورماه بعضهم بالكذب، وهو المعروف بكاتب مالك."

(نتائج الأفكار، باب ما يقال عند الصبحاح والمساء، ج: 2، ص: 413، ط: دار ابن كثير)

مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ مذکورہ سند میں موجود راوی "عمرو بن حصین" کے متعلق  محدثین کرام کے یہاں کلام ہے، اوراس کی روایات ان کے  نزدیک ضعیف  شمار ہوتي هے، اسی طرح اس روایت کے لیے جس دوسری روایت کو بطور شاہد ذکر کیا گیا ہے، وہ بھی قابل اعتبار نہیں۔ لہذا مذکورہ روایت جب تک کسی معتبر سند ثابت نہیں ہوجاتی، اسے حدیث کا درجہ دے کر آپ صلي اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان نہیں کیا جاسکتا۔باقی  چوں کہ اس روایت میں کوئی بھي ایسی غیر شرعی بات نہیں جو اس كے عمل کرنے میں خلل واقع ہو،لہذا س دعا کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، البتہ روایت کے ضعیف ہونے کی بنا پر اسے حدیث کا درجہ دینے میں احتیاط کی جائے، اور جب تک اس کے ثبوت میں کوئی معتبر سند نہ ملے، آپ صلي اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے سے گریز کیا جائے۔

نوٹ: سوال میں آپ نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب کا نام نخب الافکار لکھا ہے، جب کہ اس نام سے  حافظ کی کوئی کتاب نہیں، بلکہ علامہ عینی رحمہ اللہ کی شرح معانی الآثار کی ایک شرح کا یہ نام ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نووی رحمہ اللہ کی الاذکار کی احادیث کی تخریج سے متعلق نتائج الافکار کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، جس کا حوالہ اوپر آچکا ہے۔

   فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503100299

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں