کسی شخص پر غسل فرض ہو جائے اور وہ جان بوجھ کر وقت گزارتا رہے اور روزہ رکھ لے یہاں تک کہ نماز کا وقت داخل ہو جائے تو اب غسل کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں بغیر کسی عذر کے غسل میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، تاہم اگر کسی نے صبح صادق سے پہلے غسل نہ کیا اور اسی حالت میں سحری کرلی تو اس کا روزہ درست ہوگا، اور اس صورت میں نماز سے قبل غسل کرلینا چاہیے، نماز قضا کرنا جائز نہیں، البتہ روزے میں غسل کے دوران کلی کرتے ہوئے غرغرہ نہ کرے، اور ناک میں پانی ڈالتے ہوئے ناک کی نرم ہڈی تک پانی نہ پہنچائے، ایسا کرنے کی صورت میں اگر پانی حلق میں چلا گیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وَإِنْ تَمَضْمَضَ أَوْ اسْتَنْشَقَ فَدَخَلَ الْمَاءُ جَوْفَهُ إنْ كَانَ ذَاكِرًا لِصَوْمِهِ فَسَدَ صَوْمُهُ وَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ ذَاكِرًا لَايَفْسُدُ صَوْمُهُ، كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ، وَعَلَيْهِ الِاعْتِمَادُ". ( كتاب الصوم، الْبَابُ الرَّابِعُ فِيمَا يُفْسِدُ، وَمَا لَا يُفْسِدُ، النَّوْعُ الْأَوَّلُ مَا يُوجِبُ الْقَضَاءَ دُونَ الْكَفَّارَةِ، ١ / ٢٠٢، ط: دار الفكر) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109201370
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن