بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 ذو الحجة 1446ھ 24 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

اسٹاکس میں شرعی حدود کا تعین /سودی آمدنی کے اخراج کا طریقہ/سودی قرضوں سے حاصل کردہ کمپنی کے منافع کا حکم


سوال

(1) اسٹاکس میں شرعی حدود کا تعین :

کیا شریعت میں کوئی خاص شرح مثلا 30 فیصد مقرر ہے کہ کسی کمپنی کے سودی قرض اور غیر شرعی آمدنی کی حد کتنی ہو سکتی ہے؟

یہ 30 فیصد کا تناسب کیوں مقرر کیا گیا ہے؟کیا اس کی بنیاد قرآن و حدیث میں ہے یا یہ فقہاء کی اجتہادی رائے ہیں؟

کیا اس حد یعنی 30 فیصد میں کمی یا اضافہ ہو سکتا ہے؟ اگر ہاں تو کن بنیادوں پر؟

(2) غیر شرعی آمدنی کے اخراج کا طریقہ:

کیا شریعت کے مطابق کسی کمپنی کے اسٹاکس کی غیر شرعی آمدنی کو صدقہ کرنے کے علاوہ کوئی اور طریقہ موجود ہے؟

اگر کوئی شخص غیر شرعی آمدنی کی رقم کسی اسلامی ادارے یا مدرسے کو دینا چاہے تو کیا یہ جائز ہے؟

کیا یہ ضروری ہے کہ غیرشرعی آمدنی کی رقم فوری طور پر صدقہ کر دی جائے یا اسے جمع کر کے سالانہ بنیاد پر بھی صدقہ کیا جا سکتا ہے؟

(3) سودی قرضوں سے حاصل کردہ کمپنی کے منافع کا حکم:

اگر کسی کمپنی نے اپنے کاروبار کو سودی قرضے لے کر وسعت دی ہو اور وہ سودی قرضے کمپنی کے اثاثوں کا 30 فیصد سے کم ہوں تو کیا اس کمپنی کے منافع سے مجھے بھی تطہیر کرنی ہوگی؟اگر کمپنی اپنے سودی قرضوں کو ختم کر دے تو کیا ماضی کی غیر شرعی آمدنی بھی حلال ہو جائے گی؟

جواب

1. شریعت میں سودی قرض یا غیر شرعی آمدنی کی کوئی مخصوص شرح (مثلاً 30 فیصد) مقرر نہیں کی گئی،اور نہ ہی یہ تعیین براہِ راست فقہاء نے کی ہے، البتہ فقہاء کی عبارات سے یہ اصول ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص یا ادارے کے مال میں حلال اور حرام اس قدر مخلوط ہو جائیں کہ علیحدہ کرنا ممکن نہ ہو،تو ایسی صورت میں دیکھا جائے گا کہ آیا اس کی غالب آمدنی حلال ہے یا نہیں، اگر غالب حصہ حلال ہو تو اس کا مال حلال تصور کیا جائے گا، لہٰذا غلبہ جس شرح پر ثابت ہو (چاہے 30 فیصد سے کم ہو یا زیادہ)،اسی کا اعتبار کیا جائے گا،اور یہ فیصلہ انہی فقہی عبارات کی بنیاد پرہوگا۔

2. حرام آمدنی سے تواولاًدور رہنا چاہئے،پھربھی  اگرکوئی حرام آمدنی کسی شخص کو حاصل  ہو مثلاً ،سود، شراب یا دیگر حرام ذرائع سے، تو شریعت کے مطابق اس کا واحد صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کر دیا جائے، اس رقم کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا یا اس سے نفع اُٹھانا جائز نہیں۔ یہ انسان کے لیے مالِ خبیث (ناپاک مال) ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے، اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ شریعت میں مقرر نہیں اوریہ حرام آمدنی زکات کے مستحقین کو دینا، رفاہی کاموں میں خرچ کرنایاکسی اسلامی ادارے یا مدرسے کو دینا جائز ہے بشرطیکہ دینے والا  یہ بات واضح کرےکہ یہ حرام آمدنی کا اخراج ہے، اور وہ صرف اپنی ذمہ داری ادا کر رہا ہے، کوئی ثواب حاصل کرنے کی نیت نہیں۔نیزبہتر اور احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ جیسے ہی یہ آمدنی حاصل ہو فوراً اسے صدقہ کر دیا جائے، تاکہ انسان جلد از جلد حرام مال کے بوجھ سے سبکدوش ہو جائے۔

البتہ اگر فوری طور پر اخراج ممکن نہ ہو، مجبوری ہو،تو جمع کر کے سالانہ بنیاد پر بھی صدقہ کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس میں تاخیر کرنے کا مقصد ٹال مٹول نہ ہو، بلکہ صرف سہولت یا انتظامی حکمت کے تحت ہو۔

3. اگر کمپنی سودی قرضے لے کر کاروبار کووسعت دیتی ہےاور  پھراس سےاپنے شرکاء کو منافع دیتی ہے،تو ایسی صورت میں کمپنی کا اگرچہ اس طریقہ سے قرض لیناناجائز ہے، لیکن اس سے حاصل شدہ نفع  پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، البتہ اگر کمپنی سودی قرضے دے کر کاروبار کو وسعت دیتی ہے، تو چونکہ ایسی صورت میں تمام شرکاء کو اس سود کا فائدہ پہنچ رہا ہے ،اس لئے ایسی صورت میں تطہیر ضروری ہوگی۔

واضح رہے اگر کمپنی سودپر قرضےدینے کا کاروبارختم کردے،توسود کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی ماضی کی حرام آمدنی حلال نہیں ہوگی،بلکہ وہ بدستور حرام رہے گی۔

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"قال: (ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور) لأن الغالب في مالهم الحرمة. قال: (إلا إذا علم أن ‌أكثر ‌ماله ‌حلال) بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به، لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام والمعتبر الغالب، وكذلك أكل طعامهم."

(كتاب الكراهيه، فصل في الكسب، ج: 4، ص: 176، ط: دار الكتب العلميه)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وفي الجملة أن طلب الحلال من هذه البلاد صعب وقد قال بعض مشايخنا عليك بترك الحرام المحض في هذا الزمان فإنك لا تجد شيئا لا شبهة فيه كذا في جواهر الفتاوى."

(كتاب الكراهيه، الباب الخامس والعشرون في البيع والاستيام على سوم الغير،  ج: 5، ص: 364، ط: دار الفكر)

جمع الوسائل فی شرح الشمائل میں ہے:

"عن أنس بن مالك قال: كان النبي) ۔۔۔(صلى الله عليه وسلم يدعى إلى خبز الشعير والإهالة) ۔۔۔(السنخة) ۔۔۔ (فيجيبه ولقد كانت له درع)۔۔۔(عند يهودي)۔۔۔(فما وجد ما يفكها)۔۔۔(حتى مات)۔۔۔وفي الحديث جواز معاملة الكفار فيما لم يتحقق تحريم عين المتعامل فيه، وعدم الاعتبار بفساد معتقداتهم ومعاملتهم فيما بينهم، واستنبط منه جواز معاملة من أكثر ماله حرام يعني لقوله تعالى أكالون للسحت."

(باب ما جاء في تواضع رسول الله صلى الله عليه وسلم،ج:2، ص:134، ط: المطبعة الشرفية)

القواعد الام للفقہ واثرہا فی الصناعۃ الفقہیۃالمتقدمۃ والمعاصرۃمیں ہے:

"قال ابن عبد السلام: فإن قيل، ما تقولون في معاملة من اعترف بأن أكثر ماله حرام، هل تجوز أم لا؟ قلنا: إن غلب الحرام عليه بحيث يندر الخلاص منه لم تجز معاملته، مثل أن يقر إنسان أن في يده ألف دينار كلها حرام إلادينارا واحدا، فهذا لا تجوز معاملته، لندرة الوقوع في الحلال،۔۔۔ وإن غلب الحلال بأن اختلط درهم حرام بألف درهم حلال جازت المعاملة،۔۔۔ لندرة الوقوع في الحرام.

قال ابن المنذر: اختلفوا في مبايعة من يخالط ماله حرام وقبول هديته وجائزته فرخص فيه الحسن ومكحول والزهري والشافعي قال الشافعي، ولا أحب ذلك وكره ذلك طائفة قال وكان ممن لا يقبل ذلك ابن المسيب والقاسم بن محمد وبشر بن سعيد والثوري ومحمد بن واسع وابن المبارك وأحمد بن حنبل رضي الله عنهم أجمعين.

قال السيوطي: معاملة من أكثر ماله حرام إذا لم يعرف عن الحرام لا يحرم في الأصح، لكن يكره، وكذا الأخذ من عطايا السلطان إذا غلب الحرام في يده."

(‌‌الباب الثاني القاعدة الثانية من القواعد الكبرى: الشريعة مبنية على جلب المصالح ودرء المفاسد، الفصل الثاني: القواعد الضابط لمعرفة المصالح المعتبرة في الشرع، ‌‌المبحث الثالث قاعدة: المعتبر في المصالح والمفاسد الغلبة، ولا عبرة بالمقابل المغلوب، ‌‌المسألة الثانية: من الفروع المتقدمة للقاعدة، ص: 184، ط: دار ابن كثير)

فتاوی شامی میں ہے:

‌"و الحاصل ‌أنه ‌إن ‌علم ‌أرباب ‌الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد ،ج: 5،ص: 99، سعید)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج: 1، ص: 95، ط: مجلس الدعوة التحقيق الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله لو بماله الحلال) قال تاج الشريعة: أما لو أنفق في ذلك ‌مالا ‌خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره؛ لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله. اهـ. شرنبلالية."

(کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، ج: 1،ص: 658،سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144611101599

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں