بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اسٹاک سنز میں انویسٹ کرنے کا حکم


سوال

کیا بیرونی کرنسی ایکسجینج  کا کام کرنا جائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والے نفع کا کیا حکم ہے؟مثال کے طور پر میں پاکستانی کرنسی چینج کروا کر ڈالر خریدتا ہوں اور ملٹی نیشنل کمپنی میں انویسٹ کرتا ہوں وہ کمپنی روزانہ کی بنیاد پر مختلف کرنسی خریدتی اور بیچتی ہے ،  اس سے جو نفع آتا ہے وہ ڈالر  میں آتا ہے ، اگر ہم یورو میں انویسٹ کریں گے تو نفع یورو میں آئے گا، اس میں ریٹ اوپر نیچے بھی ہوتے ہیں ،  اگر ہم اپنا نفع نکالتے وقت اگر ریٹ جو بھی ہوں گے اس ریٹ پر پرافٹ ملے گا ، ہم نے جس ریٹ پر انویسٹ کی ہوگی اس ریٹ پر نہیں ملے گا ،  اس کاروبار  اور نفع کا اسلام میں کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے  کہ  کرنسی کےکاروبار  میں چند شرائط  کی  رعایت  ضروری ہے اور وہ  مندرجہ ذیل ہیں:

1)  ایک ہی قسم کی کرنسی میں مقدار میں برابری ضروی ہے،زیادتی نہیں ہوسکتی مثلًا 10  ڈالر کے بدلہ میں  12  ڈالر کا معاملہ نہیں ہوسکتا۔

2)  ادھار  معاملہ  نہ  ہو، بلکہ  اسی  وقت  ہاتھ  در  ہاتھ  معاملہ  ہو۔ ایک فریق اپنی کرنسی دوسرے کے حوالہ کردے اور دوسرا پہلے کو اپنی کرنسی حوالہ کردے۔

اگر یہ دو شرائط نہیں پائی جائیں گے تو معاملہ خراب ہوجائے گا اور سودی معاملہ بن جائے گا۔

3- اسی طرح کسی کمپنی یا فرد کے پاس سرمایہ کاری کرنے میں نفع اور نقصان میں شرکت ضروری ہے،  سرمائے کی  واپسی  کی یقین دہانی  جائز نہیں ہے اور نفع کی تعیین بھی  جائز نہیں ہے۔

 مذکورہ کمپنی کرنسی کی تجارت میں مندرجہ بالا شرائط کی پابندی کرتی ہے یا نہیں،  اس کی تفصیلی معلومات ویب سائٹ پر موجود نہیں ہیں؛ لہذا کمپنی  کے کرنسی  کے کاروبار  کے جائز ہونے یا نہ ہونے کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

مذکورہ  کمپنی  کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق کمپنی سرمائے کی واپسی کی یقین دہانی اور روزانہ کی بنیاد پر طے شدہ فیصد کے حساب سے نفع دیتی ہے، (نفع  کی تعیین بعض صورتوں میں متردد ہوتی ہے مثلاً  چائنیز کرنسی میں انویسٹ کرنے کی صورت  میں نفع  1.3 سے 2 فیصد کے درمیان متردد ہوگا بعض صورتوں میں ایک حتمی شرح نفع کی ہوتی ہے )۔ اس طرح کی شرکت شرعًا  شرکتِ  فاسدہ  ہے  اور  حاصل ہونے والا نفع حلال طیب نہیں ہوگا، لہذا اس کمپنی کے ساتھ کاروبار کرنا درست نہیں ہے۔ 

الفتاوى الهندية میں ہے:

"وأن يكون الربح جزءا شائعًا في الجملة لا معينًا فإن عينًا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً، كذا في البدائع."

(کتاب الشرکت ج نمبر ۲ ص نمبر ۳۰۲،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں