بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسٹاک ایکسچینج سے شیرز لینے کا حکم


سوال

اسٹاک ایکسچینج سے شیرز لینے کاکیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قدیم زمانے میں بھی لوگوں میں مشترکہ کاروبار و شراکت داری کرنے کا رواج عام تھا، اور کاروبار میں شریک افراد اپنے حصے دوسروں کو فروخت بھی کیا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ مشترکہ کاروبار میں شریک افراد کے حصص (شیئرز) کی خرید و فروخت کی شرائط و اَحکام کتبِ فقہ میں  ملتے ہیں، لہذا وسیع سرمایہ کاری کے اس دور میں شیئرز کی خرید و فروخت  میں ان ہی شرائط و احکام کی پابندی ضروری ہے، اس لیے کہ شیئرز کی خرید و فروخت درحقیقت شراکت داری کی ہی ایک شکل ہے۔

کسی کمپنی کے شیئرز درحقیقت اس کمپنی کے اثاثوں و املاک میں شیئر ہولڈرز کی ملکیت کے ایک متناسب حصہ کی نمائندگی کرتے ہیں، یعنی جب کوئی کسی کمپنی کے شیئرز خریدتا ہے تو وہ اس کمپنی کے اثاثوں و املاک میں اپنے شیئر کے بقدر حصہ کا مالک بن جاتا ہے، اور اس کمپنی کے کاروبار میں شرعًا شریک ہوتا ہے، جس کی وجہ سے تجارتی نفع و نقصان میں اپنے شیئر کے بقدر شریک ہوتا ہے۔

اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنا  نہ تو مطلقًا حرام ہے، اور  نہ  ہی مطلقًا جائز ہے، اگر حصص کی خرید و فرخت کے وقت درج ذیل  شرائط کی پاس داری کرتے ہوئے  سرمایہ کاری کی جائے تو یہ سرمایہ کاری جائز ہوگی:

1-  حقیقی کمپنی کے شیئرز کی خریداری کی جائے، ورچوئل  کمپنی کے شیئرز کی خریداری نہ کی جائے۔

2-   حلال  سرمایہ  والی کمپنی کے شیئرز خریدے جائیں، بینک یا حرام کاروبار کرنے والے اداروں کے شیئرز کی خریداری نہ ہو۔

3-   کمپنی نے بینک سے سودی قرضہ نہ لیا ہو۔

4-  کمپنی  کا کاروبار حلال ہو۔

5-    اس کمپنی کے کل اثاثے نقد کی شکل میں نہ ہوں، بلکہ اس کمپنی کی ملکیت میں جامد اثاثے بھی موجود ہوں۔

6-  کمپنی کا کل یا کم از کم اکثر سرمایہ حلال ہو۔

7-  شیئرز کی خرید و فروخت میں، خرید و فروخت کی تمام شرائط کی پابندی ہو۔

8-   کمپنی حاصل شدہ منافع کل کا کل شیئرز ہولڈرز میں تقسیم کرتی ہو۔

9-  شیئرز  اور اس کی قیمت کی ادائیگی  دونوں ادھار نہ ہو۔

10-  شیئرز کی خرید و فروخت میں جوے کی صورت نہ ہو۔

11-جس حلال اور جائز کمپنی کے شئیرزخریدے جائیں،توقبضہ سے پہلے آگے فروخت  نہیں کئے جائیں،قبضہ کے بعد آگے کسی کو فروخت کرسکتے ہیں،موجودہ دور میں CDC اکاؤنٹ میں  شئیرزکا منتقل ہو جانا شرعاًقبضہ ہے،لہذا  CDC اکاؤنٹ میں جب تک شئیرز منتقل نہ ہو جائیں اس وقت تک آگے فروخت نہ کئے جائیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌أما ‌شركة ‌العنان فهي أن يشترك اثنان في نوع من التجارات بر أو طعام أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة خاصة، كذا في فتح القدير، وصورتها أن يشترك اثنان في نوع خاص من التجارات أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة والمفاوضة فيها فتضمنت معنى الوكالة دون الكفالة حتى تجوز هذه الشركة بين كل من كان من أهل التجارة، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الشركة، الباب الثالث في شركة العنان، الفصل الأول في تفسير شركة العنان وشرائطها وأحكامها، ج:2، ص:319، ط: رشیدیة)

البحر الرائق میں ہے:

"‌وأما ‌شرائط ‌المعقود عليه فأن يكون موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه وأن يكون مقدور التسليم فلم ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم..........‌وخرج ‌بقولنا وأن يكون ملكا للبائع ما ليس كذلك فلم ينعقد بيع ما ليس بمملوك له، وإن ملكه بعده."

(شرائط البيع، شرائط النفاذ، ج:5، ص:280، ط: دار الكتاب الإسلامي)

الفقه الإسلامي و ادلته میں ہے:

"وأما الموكل فيه (محل الوكالة): فيشترط فيه ما يأتي: ....

أن يكون التصرف مباحاً شرعاً: فلا يجوز التوكيل في فعل محرم شرعاً، كالغصب أو الاعتداء على الغير."

(الوكالة، شروط الوكالة، الموكل فيه، ج:4،ص:2999، ط: دار الفكر)

الجوہرة النيرة میں ہے:

"قوله: (‌ومن ‌اشترى ‌شيئا ‌مما ‌ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه)."

(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، ج:1،ص:210، ط: المطبعة الخيرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں