بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسٹاک اکسچینج کا آن لائن کام کرنا اور اس میں ٹریڈنگ کرنے کا حکم


سوال

اسٹاک اکسچینج کا کام آن لائن  کرنا اس میں ٹریڈینگ کرنا شرطیں لگاکر کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اسٹاک ایکسچینج  کی سرمایہ کاری  میں اگر مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھاجاتاہوتوجائزہے، ورنہ نہیں:

1۔ جس کمپنی کے شیئرز کی خرید و فروخت کی جارہی ہو، خارج میں اس کمپنی کا وجود ہو، صرف کاغذی طور پر رجسٹرڈ نہ ہو۔

2۔  اس کمپنی کے کل اثاثے صرف نقد کی شکل میں نہ ہوں، بلکہ اس کمپنی کی ملکیت میں جامد اثاثے بھی موجود ہوں۔

3۔ کمپنی کا  سرمایہ حلال ہو۔

4۔ کمپنی کا کاروبار جائز ہو، حرام اشیاء کے کاروبار پر مشتمل نہ ہو۔

5۔ شیئرز کی خرید و فروخت میں، خرید و فروخت کی تمام شرائط کی پابندی ہو۔ (مثلاً: شیئرز خریدنے کے بعد وہ مکمل طورپرخریدار کے قبضے میں  آجائیں، اس کے بعد انہیں آگے فروخت کیا جائے، خریدار کی ملکیت مکمل ہونے اور قبضے سے پہلے شیئرز آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا، اسی طرح فرضی خریدوفروخت نہ کی جائے۔)

6۔ حاصل شدہ منافع کل کا کل شیئرز ہولڈرز میں تقسیم کیا جاتا ہو، (احتیاطی) ریزرو کے طور پر نفع کا کچھ حصہ محفوظ نہ کیا جاتا ہو۔

7۔ شیئرز کی خرید و فروخت کے دوران بالواسطہ یا بلاواسطہ سود اور جوے کے کسی معاہدے کا حصہ بننے سے احتراز کیا جاتا ہو۔

8۔ مذکورہ بالا شرائط کا لحاظ رکھ کر اگر کوئی کمپنی سونا، چاندی یا نقدی کی خرید و فروخت کرتی ہے تو اس کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط مزید یہ بھی ہے کہ عوضین پر قبضہ مجلسِ عقد میں ہو، اگر کسی ایک عوض پر قبضہ ادھار ہو تو یہ جائز نہیں ہے۔

مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کرتے ہوئے اگر شیئرز کا کاروبار کیا جائے تو جائز ہوگا، اور شرائط کا لحاظ نہ رکھنے کی صورت میں یہ کاروبار جائز نہیں ہوگا۔ بہرصورت بہتر یہی ہے کہ اس کاروبار سے اجتناب کیا جائے، اس لیے کہ مارکیٹ میں ان تمام شرائط کے ساتھ شیئرز کا کاروبار بہت مشکل ہے، خصوصاً سونا چاندی وغیرہ کی بیع میں مجلسِ عقد میں قبضہ بہت ہی مشکل ہے؛ اس لیے اجتناب کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

شرح معانی الآثار میں ہے:

"عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن ‌بيع ‌الكالئ بالكالئ يعني: الدين بالدين."

(‌‌كتاب البيوع، ‌‌باب بيع المصراة، ج:4، ص:21، ط:عالم الكتب)

أحكام القران للجصاصمیں ہے:

"وَحَقِيقَتُهُ تَمْلِيكُ الْمَالِ عَلَى الْمُخَاطَرَةِ وَهُوَ أَصْلٌ فِي بُطْلَانِ عُقُودِ التَّمْلِيكَاتِ الْوَاقِعَةِ عَلَى الْأَخْطَارِ."

( المائدة: آیت:90، باب تحريم الخمر، ج:4، ص:127،  ط: دار احياء التراث العربي)

وفيه ايضاً:

"وَلَا خِلَافَ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَحْرِيمِ الْقِمَارِ وَأَنَّ الْمُخَاطَرَةَ مِنْ الْقِمَارِ قَالَ ابْن عَبَّاسٍ إنَّ الْمُخَاطَرَةَ قِمَارٌ وَإِنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يُخَاطِرُونَ عَلَى الْمَالِ وَالزَّوْجَةِ وَقَدْ كَانَ ذَلِكَ مُبَاحًا إلَى أَنْ وَرَدَ تَحْرِيمُهُ وَقَدْ خَاطَرَ أَبُو بَكْر الصِّدِّيقُ الْمُشْرِكِينَ حِينَ نزلت الم غُلِبَتِ الرُّومُ،وَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: زِدْ فِي الْخَطَرِ وَأَبْعِدْ فِي الْأَجَلِ ثُمَّ حُظِرَ ذَلِكَ وَنُسِخَ بِتَحْرِيمِ الْقِمَارِ وَلَا خِلَافَ فِي حَظْرِهِ."

( البقرة: آیت:219، باب تحريم الميسر، ج:2، ص:11، ط: دار احياء التراث العربي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) قبض البدلين في بيع الدين بالدين وهو عقد الصرف والكلام في الصرف في الأصل في موضعين: أحدهما في تفسير الصرف في عرف الشرع، والثاني في بيان شرائطه (أما) الأول فالصرف في متعارف الشرع " اسم لبيع الأثمان المطلقة بعضها ببعض وهو بيع الذهب بالذهب والفضة بالفضة وأحد الجنسين بالآخر...وأما الشرائط (فمنها) قبض البدلين قبل الافتراق لقوله: - عليه الصلاة والسلام - في الحديث المشهور «والذهب بالذهب مثلا بمثل يدا بيد والفضة بالفضة مثلا بمثل يدا بيد»."

(كتاب البيوع، الصرف وتفسيره، ج:5، ص:215، ط:دار الكتب العلمية)

البحرالرائق میں ہے:

"‌وأما ‌شرائط ‌المعقود ‌عليه فأن يكون موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه وأن يكون مقدور التسليم فلم ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم...وخرج بقولنا وأن يكون ملكا للبائع ما ليس كذلك فلم ينعقد بيع ما ليس بمملوك له، وإن ملكه بعده."

(كتاب البيع، شرائط البيع، ج:5، ص:279-280، ط:دار الكتاب الإسلامي)

الفقه الإسلامي و ادلته میں ہے:

"وأما الموكل فيه (محل الوكالة): فيشترط فيه ما يأتي: ....

أن يكون التصرف مباحاً شرعاً: فلا يجوز التوكيل في فعل محرم شرعاً، كالغصب أو الاعتداء على الغير."

(الوكالة، شروط الوكالة، الموكل فيه، ج:4، ص:2999، ط: دار الفكر)

فقه المعاملات میں ہے:

"يشترط في الموكل به - لصحة الوكالة - ثلاثة شروط:

(أحدها) أن يكون إتيانه سائغًا شرعًا.

وعلى ذلك فلايصح التوكيل بالعقود المحرمة والفاسدة والتصرفات المحظورة شرعًا؛ لأنّ الموكل لايملكه، فلايصحّ أن يفوضه إلى غيره، و لأن التوكيل نوع من التعاون، و التعاون إنما يجوز على البر والتقوى لا على الإثم والعدوان."

( الوكالة، المؤكل به، ج:1، ص:1067)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"قوله: (ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول ‌لم ‌يجز ‌له ‌بيعه ‌حتى ‌يقبضه) مناسبة هذه المسألة بالمرابحة والتولية أن المرابحة إنما تصح بعد القبض ولا تصح قبله."

(كتاب البيوع، بَابُ الْمُرَابَحَةِ وَالتَّوْلِيَةِ، ج:1، ص:210، ط: المطبعة الخيرية)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"‌أما ‌شركة ‌العقود ‌فأنواع ‌ثلاثة: شركة بالمال، وشركة بالأعمال وكل ذلك على وجهين: مفاوضة وعنان، كذا في الذخيرة. وركنها الإيجاب والقبول وهو أن يقول أحدهما: شاركتك في كذا وكذا ويقول الآخر: قبلت، كذا في الكافي، ويندب الإشهاد عليها، كذا في النهر الفائق. وشرط جواز هذه الشركات كون المعقود عليه عقد الشركة قابلا للوكالة، كذا في المحيط وأن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة وأن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة لا معينا فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة، كذا في البدائع. وحكم شركة العقد صيرورة المعقود عليه وما يستفاد به مشتركا بينهما، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الشركة، الباب الأول في بيان أنواع الشركة وأركانها وشرائطها وأحكامها، الفصل الأول في بيان أنواع الشركة، ج:2, ص:301-302، ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101618

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں