بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر مردانہ طور پر کمزورہو اور والد کا اپنی بیٹی کو شوہر کے گھر سے روکنےکاحکم


سوال

میرے بھائی کی شادی میری سالی سے تین سال قبل ہوئی تھی ،جس سے ایک سال بعد ان کا بیٹا ہوا ، اب میری سالی اپنے والدین کے گھر میں جاکر بیٹھ گئی ہے اور والدین کو یہ کہاہے کہ میرے شوہر مردانہ کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں ، میں مطمئن نہیں ہوپاتی، وہ جلدی فارغ ہوجاتے ہیں ، تو اب اس کے والدین بچی کو گھر نہیں بھیج رہے، جب کہ بچی  کی رائے معلوم نہیں کہ آنا چاہتی ہے یانہیں ؟ پوچھنا یہ ہے کہ سسرکابچی کو روکنا درست ہے یانہیں؟اورلڑکی کے والد اگر جدائی کرواناچاہیں تو ان کا یہ عمل درست ہے یانہیں ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کی  سالی  کا یہ کہنا کہ میرے شوہر مردانہ  طور پر کمزور  ہیں،جلدی فارغ ہوجاتے ہیں ،میں مطمئن نہیں ہوپاتی ، جب کہ  پہلے ایک بیٹا بھی ہوچکاہے تو اس شکایت کی  بناپر لڑکی کے  والد کا اپنی بیٹی کو شوہر کے گھر سے روکنا اور گھر نہ بھیجنا   شرعًاجائز نہیں ،والد اگر بیٹی کی رضامندی کے بغیر طلاق یاخلع کے ذریعےاپنی بیٹی کی  جدائی کروانا  چاہیں تو ان کا یہ عمل  شرعًا درست نہیں، ایسا کرنے پر وہ گناہ کے مرتکب ہوں گے۔

ردالمحتار میں ہے:

"(قوله: ويسقط حقها بمرة) قال في الفتح: واعلم أن ترك جماعها مطلقًا لايحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانًا واجب ديانةً لكن لايدخل تحت القضاء والإلزام إلا الوطأة الأولى، ولم يقدروا فيه مدةً و يجب أن لايبلغ به مدة الإيلاء إلا برضاها وطيب نفسها به اهـ قال في النهر: في هذا الكلام تصريح بأن الجماع بعد المرة حقه لا حقها اهـ قلت: فيه نظر بل هو حقه وحقها أيضًا لما علمت من أنه واجب ديانةً.

قال في البحر: وحيث علم أن الوطء لايدخل تحت القسم فهل هو واجب للزوجة؟ و في البدائع: لها أن تطالبه بالوطء؛ لأن حله لها حقها كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب عليه ويجبر عليه في الحكم مرةً والزيادة تجب ديانةً لا في الحكم عند بعض أصحابنا وعند بعضهم عليه في الحكم اهـ"۔

 (کتاب النکاح، باب القسم (3 / 202) ط: سعید

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100850

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں