بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ملازم کا کام کے پیسے لینا


سوال

میں اراضی ریکارڈ سنٹر میں ملازم ہوں جو گورنمنٹ کا ادارہ ہے جہاں زمینوں کا لین دین ہوتا ہےاور اگر میں کسی کا کام کرتا ہوں تو مجھے میرے مانگے  بغیر کوئی کچھ روپے دے جاتا ہے تو کیا وہ رشوت ہے؟ یا میں کام کرتا ہوں اور اس میں کسی کی حق تلفی نہیں ہو رہی اور میں پیسے مانگ کر لے لیتا ہوں تو کیا یہ حرام ہوگا ؟

جواب

جو کام آپ  کی ملازمت کی ذمہ داریوں میں سے نہیں ہو تو ایسے کام  کی اجرت  باہمی رضامندی سےطے کر کے وصول کرنا جائز ہے، لیکن جو کام سرکار کی طرف سے آپ کے ذمہ ہے اور آپ کی ملازمت کی ذمہ داریوں میں سے ہے  اس کام کے لئے آپ کا  پیسے مانگنا اور لینا  شرعا رشوت کے زمرے میں آتا ہے جس کا لین دین شرعا حرام ہے،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے والے کا ٹھکانہ جہنم بتلایا ہے ،کوئی خود سے اگر کام کروانے پر کچھ رقم دے دیتا ہے اور آپ کی طرف سے صراحۃً یا اشارۃً لینے کا مطالبہ نہ ہو اور نہ آپ کے محکمے میں اس طرح لین کا رواج ہو پھر وہ رقم لینے کی گنجائش ہوگی ۔

مرقاة المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه".

(کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني،ج:۷ ؍۲۹۵ ،ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144403101945

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں