ہماری مسجد کے ساتھ ایک سرکاری نہر بہتی ہے، مسجد انتظامیہ نے اس نہر پر لنٹر ڈال کر اس کو مسجد کے ساتھ شامل کردیا، نہر کیونکہ قومی املاک میں سے ہے اور گورنمنٹ کی پراپرٹی ہے، بغیر اجازت کے اس کو مسجد میں شامل کرنا کیسا ہے؟ اور آیا اس جگہ پر، جو انتظامیہ نے بغیر اجازت قبضہ کرکے شامل کی ہے اور مسجد کی وقف زمین نہیں ہے، تو کیا اس جگہ کو لنٹر ڈال کر مسجد میں بغیر اجازت شامل کیا گیا، اس پر نماز ہوجائے گی یا نہیں؟
واضح رہے کہ شرعی مسجد کی جگہ خالص اللہ کے لیے وقف جگہ ہوتی ہے اور جگہ وقف کرنے کی ایک شرط اس جگہ کا مالک ہونا ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کا بیان واقعی درست ہو تو چوں کہ نہر قومی املاک، گورنمنٹ کی پراپرٹی میں سے ہے، لہذا حکومت کی اجازت کے بغیر نہر پر لنٹرڈال کر اس کو مسجد میں شامل کرناجائز نہیں ہے،اس پر نماز تو ہوجائے گی، باقی معتکفین کے لئے اس جگہ پر آنے کی اجازت نہیں ہوگی، ہاں اگر حکومت سے اجازت مل جائے تو معتکفین کے لئے بھی وہاں آنا جائز ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: وشرطه شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد أن يكون مالكه وقت الوقف ملكا باتا ولو بسبب فاسد، وأن لا يكون محجورا عن التصرف، حتى لو وقف الغاصب المغصوب لم يصح."
(كتاب الوقف،ج:4،ص:341،ط:سعید)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"الصلاة في أرض مغصوبة جائزة ولكن يعاقب بظلمه فما كان بينه وبين الله تعالى يثاب وما كان بينه وبين العباد يعاقب. كذا في مختار الفتاوى الصلاة جائزة في جميع ذلك لاستجماع شرائطها وأركانها وتعاد على وجه غير مكروه وهو الحكم في كل صلاة أديت مع الكراهة."
(كتاب الصلوة،ج:1،ص:109،ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144312100572
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن