اگر ایک لڑکی نکاح کے وقت "قبول ہے" دل سے نہ بولے بلکہ صرف زبان سے یہ لفظ ادا کردے اور نکاح نامے پر دستخط بھی کر دے اور یہ نکاح شرعی گواہوں کی موجودگی میں بھی ہوا ہو لیکن شادی کے بعد عورت اپنے خاوند کو ہمبستری کرنے سے روک دے اور کہے کہ میں نے "قبول کیا ہے" دل سے نہیں کہا تھا بلکہ صرف زبان سے کہا ہے اس لیے آپ میرے خاوند نہیں ہیں ، تو کیا لڑکی کا یوں کہنا درست ہے اور کیا اگر لڑکی دل سے رشتہ قبول نہ کرے تو کیا نکاح درست ہے ؟
واضح رہے کہ شریعتِ مطہر ہ میں احکامات انسان کے ظاہری اعمال وافعال پر لگتے ہیں،دل کی بات ایک امرِ باطنی ہے جس پر مفتی یا قاضی مطلع نہیں ہوسکتا،لہٰذا صورت مسئولہ میں جب لڑکی نے دوشرعی گواہوں کی موجودگی میں کہہ دیا " میں قبول کیاہے" تو اس سے شرعاً نکاح منعقد ہوچکاہے، چاہے اس نے لڑکی نے دل سے قبول کیا ہو یا نہ کیا ہو؛کہ نکاح ان احکامات کے قبیل سے ہے جو ہنسی مذاق میں بھی قبول کرنے سے منعقد ہو جاتاہے،اس لیے وہ لڑکی اب اپنے شوہر کے عقدِ نکاح میں آچکی ہے اور نکاح کے جمیع حقوق کانبھانا میاں بیوی پر لازم ہوچکاہے۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشادہے:
حدثنا قتيبة، قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل ، عن عبد الرحمن بن أردك ، عن عطاء ، عن ابن ماهك ، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ثلاث جدهن جد وهزلهن جد: النكاح»، والطلاق، والرجعة."
(ج:2، ص: 476، رقم الحدیث: 1184، ط: دارالغرب الاسلامي)
بدائع الصنائع میں ہے:
وأما الطوع فليس بشرط لجواز النكاح عندنا خلافا للشافعي، فيجوز نكاح المكره عندنا...وهذه من مسائل كتاب الإكراه، وكذلك الجد ليس من شرائط جواز النكاح حتى يجوز نكاح الهازل؛ لأن الشرع جعل الجد، والهزل في باب النكاح سواء قال النبي: صلى الله عليه وسلم «ثلاث جدهن جد، وهزلهن جد الطلاق والعتاق والنكاح» وكذلك العمد عندنا حتى يجوز نكاح الخاطئ وهو الذي يسبق على لسانه كلمة النكاح من غير قصده."
(ج:2، ص: 310، ط: دارالکتب العلمية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144504101069
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن