میرے دو سوال ہیں 1۔زید کے انتقال کے بعد وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی، جبکہ ورثاء میں اس نے ایک بیوہ ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں؟
2۔زید کے پاس تین مکان تھے، دو مکان اس نے اپنے نام پر جبکہ ایک مکان اس نے کا غذات میں اپنی بیوی کے نام پر کر رکھا تھا ، زید اپنی زندگی میں جب وارثوں میں جائیداد کی تقسیم کی بات کرتا تھا تو تین مکان کی بات کرتا تھا، جس کے سب وارث گواہ ہیں، تو جو مکان زید کی بیوی کے نام ہے، اس کا مالک زید کہلائے گا یا زید کی بیوی؟
مرحوم کےترکہ کوتقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے ترکہ میں سے سب سے پہلے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم پر کسی کا قرضہ ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد اوراگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی حصہ میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی ترکہ منقولہ و غیرمنقولہ کو 64 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ کو 8 حصے ، اس کے ہر بیٹے کو 14 حصے اور اس کی ہر ایک بیٹی کو 7 حصے ملیں گے۔
صورت تقسیم یہ ہے:
مرحوم 64/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||
8 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 |
یعنی 100 روپے میں سے مرحوم کی بیوہ کو 12.5، اس کے ہر ایک بیٹے کو 21.87اور اس کی ہرا یک بیٹی کو10.93 روپے ملیں گے۔
2:مرحوم نے تیسرا مکان صرف کاغذات میں بیوی کے نام کیا تھا، مکان خالی کرکے مکمل قبضہ (تصرف یعنی خرید وفروخت ، تعمیر وغیرہ کا اختیار)نہیں دیا تھا ، مرحوم کا تین مکانات کی تقسیم کی بات کرنا بھی اسی بات کی تائید ہے،لہذا اس صورت میں تیسرا مکان مرحوم کا ترکہ شمار ہوگا، اور اس کے ورثاء میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا۔
مبسوط میں ہے:
"أن الهبة لا تتم إلا بالقبض"۔
(کتاب الھبہ/ج:14/ص:287/ط:بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112200958
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن