ہمارا ایک پرائیویٹ اسکول ہے، جس میں تین افراد کی شرکت ہے، جب سےا سکول کا آغاز کیا ہے، آج تک تمام شرکت دار مجموعی طور پر بارہ لاکھ روپے خرچ کر چکے ہیں، ( چار لاکھ فی فرد)، ابھی ایک پارٹنر اپنا حصہ بیچنا چاہتے ہیں کسی دوسرے بندے پر، اور ڈیمانڈ پانچ لاکھ کرتا ہے ،جب کہ اس وقت سکول منافع میں نہیں، بلکہ آٹھ ہزار فی کس خسارے میں ہے تو اس صورت میں اپنا حصہ پانچ لاکھ پر بیچنا، شریعت کے احکام کے مطابق درست ہے یا غلط؟
ہر شریک کو اپنا حصہ فروخت کرنے کا حق ہو تا ہے اور دوسرے شریک کا حصہ اس کی اجازت کے بغیر فروخت کرنے کا حق نہیں ہو تا ۔ لہذا مذکورہ صورت میں شریک کا اپنا حصہ پانچ لاکھ روپے میں بیچنا جائز ہے۔
الموسوعة الفقهیة (36/26):
"فَشَرِكَةُ الأَْمْوَال: عَقْدٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ فَأَكْثَرَ، عَلَى أَنْ يَتَّجِرُوا فِي رَأْسِ مَالٍ لَهُمْ، وَيَكُونَ الرِّبْحُ بَيْنَهُمْ بِنِسْبَةٍ مَعْلُومَةٍ. سَوَاءٌ عُلِمَ مِقْدَارُ رَأْسِ الْمَال عِنْدَ الْعَقْدِ أَمْ لاَ؛ لأَِنَّهُ يُعْلَمُ عِنْدَ الشِّرَاءِ، وَسَوَاءٌ شَرَطُوا أَنْ يُشْرَكُوا جَمِيعًا فِي كُل شِرَاءٍ وَبَيْعٍ، أَمْ شَرَطُوا أَنْ يَنْفَرِدَ كُل وَاحِدٍ بِصَفَقَاتِهِ، أَمْ أَطْلَقُوا. وَلَيْسَ حَتْمًا أَنْ يَقَعَ الْعَقْدُ بِلَفْظِ التِّجَارَةِ، بَل يَكْفِي مَعْنَاهَا: كَأَنْ يَقُول الشَّرِيكَانِ: اشْتَرَكْنَا فِي مَالِنَا هَذَا، عَلَى أَنْ نَشْتَرِيَ وَنَبِيعَ، وَنَقْسِمَ الرِّبْحَ مُنَاصَفَة."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212200043
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن