بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سورج اور چاند گرہن کے وقت نماز کیوں پڑھی جاتی ہے ؟


سوال

سورج گرہن اور چاند کے وقت نماز کیوں پڑھی جاتی؟ اس کا مقصد کیا ہے؟

جواب

سورج اور چاند گرہن ہونا  اللہ کی نشانیوں میں سےبڑی نشانیاں ہیں،  نیز یہ کائنات میں وقوع پذیر واقعات میں غیرمعمولی حیثیت رکھتے ہیں،  جس سےاللہ پاک اپنے بندوں کوتنبیہ فرماتےہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺکا طرزِ  عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہی نقل فرمایا ہے کہ آپ ﷺسورج  اور چاند گرہن کے وقت نماز میں مشغول ہوجاتے اور طویل قیام فرماتے،  یہاں تک  اندھیرا ختم ہوجاتا اور روشنی ہوجاتی ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب کوئی آسمانی واقعہ سورج یا چاند گرہن کا پیش آتا تو آپ ﷺ نماز میں مشغول ہوجاتے یہاں تک کہ گرہن ختم ہوجاتا۔اس لیے اس طرح کے مواقع میں نماز میں مشغولیت  اور استغفار میں لگ جانا سنت ہے۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ چاند اور سورج گرہن کے وقت نماز مشروع ہونے کی وجہ:

چاند اور سورج کا گرہن نمونہ اور مذکر  ہے آفت و مصیبت و اسبابِ شرکا۔ پس خدا تعالیٰ کی رحمت اور اس کی پر لطف حکمت تقاضا کرتی ہے کہ کسوف کے وقت لوگوں کو وہ طریقے سکھلائے جو کسوف کے نظیر بلاؤں کو دور کریں، بدیوں کو ہٹاویں۔

پس اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی زبان پر یہ تمام طریقے سکھلا دیے، کیوں کہ یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ دعا کے ساتھ بلا کو رد کرتا ہے اور دُعا اور بلا دونوں جب کبھی جمع ہوئیں تو دُعا ہی باذن اللہ بلا پر غالب آئی، جب کہ دُعا ایسے لبوں سے نکلتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والی ہیں۔ ’’صحیح مسلم و بخاری‘‘ سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’شمس و قمر خدا تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشان ہیں اور کسی کے مرنے یا جینے کے لیے ان کو گرہن نہیں لگتا، بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے دو نشان ہیں۔ خدا تعالیٰ ان دونوں کے ساتھ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔پس جب تم ان کو دیکھو تو جلدی سے نماز میں مشغول ہوجاؤ‘‘۔ اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ دونوں نشان گناہ گاروں کے ڈرانے کے لیے ہیں؛ تاکہ اپنے گناہ، بدکاریوں اور پلیدیوں کے وبال سے ڈریں اور اسی غرض سے رسول کریم ﷺ نے گرہن کے وقت حکم فرمایا ہے کہ بہت نیکیاں کرو اور نیک کاموں کی طرف جلدی کرو اور خالص نیت کے ساتھ  نماز اور دُعا کرنا اور خدا تعالیٰ کی تعریف کرنااور ذکر و تضرع و قیام و رکوع و سجود و توبہ و انابت و استغفار و خشوع و ابتہال اور جنابِ الٰہی میں تذلل کرنا اور تصدق و اعتاق مقرر فرمایا، تاکہ اس آنے والے عذاب سے ان اعمالِ صالح کا بجا لانا عامل کے لیے سپر ہو ،  یہ ایسا وقت ہے کہ حوادث کے پیدا ہونے کا مذکر اور اس پر منبہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہلِ معرفت کے دلوں میں خود بخود ایسے اوقات میں گھبراہٹ پیدا ہوجاتی ہے، نیز ایسے اوقات میں زمین پر تجلیات کا نزول ہوتا ہے، اس لیے صاحبِ معرفت کو ان اوقات میں خدا تعالیٰ کے ساتھ قرب حاصل کرنا بہت مناسب ہے۔

چناں چہ نعمان بن بشیر کی حدیث میں کسوف کی بابت آں حضرت ﷺ سے آیا ہے:

’’فإذا تجلی اللّٰه لشيء من خلقه خشع له‘‘. جب خدا تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کسی چیز پر تجلی فرماتا ہے تو وہ چیز اس کے سامنے جھک جاتی ہے۔

نیز کفار لوگ چاند اور سورج کو سجدہ کیا کرتے ہیں، لہٰذا مؤمن مسلمان کو لازم ہے کہ جب کوئی ایسی دلیل ظاہر ہو کہ جس سے ان چیزوں کا غیر مستحق عبادت ہونا ثابت ہو تو خدا تعالیٰ کے سامنے نیاز مندی سے التجا کرے اور خدا تعالیٰ کو سجدہ کرے، چناں چہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

{لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَهُنَّ} لوگ کبر و فخر اور بڑائی اور گھمنڈ اور ناشکری سے حالتِ توبہ و استغفار و عجز و اظہار و فاقہ و مسکنت کی طرف پھر جانے کا اظہار کرتے ہیں۔ پس چادر کا اُلٹا کرنا یہ تصویری زبان سے اظہار ہے اور زبانِ افعال کا اظہار زبانِ اقوال کے اظہار سے زیادہ کامل ہے۔ نیز اس میں یہ امر بھی مرموز ہے کہ تصویری زبان میں افعال واخلاقِ سیئہ سے نجات اور افعال و اخلاقِ حسنہ کی توفیق کے لیے دُعا کی جاتی ہے‘‘۔(احکام اسلام عقل کی نظر میں ، ص:82مکتبہ عمر فاروق )

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد . (2 / 248):

"عن أبي الدرداء قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كانت ليلة ريح شديدة كان مفزعه إلى المسجد حتى تسكن الريح، وإذا حدث في السماء حدث من خسوف شمس أو قمر كان مفزعه إلى الصلاة حتى تنجلي".

سورج گرہن کو "کسوف" کہتے ہیں ،  سورج گرہن کے وقت دو رکعت نماز باجماعت پڑھنا مسنون ہے، ہاں اگر تنہا پڑھ رہا ہو تو دو سے زیادہ بھی  (چار، چھ )جتنی چاہیں پڑھ  سکتے ہیں۔

چاند گرہن کو "خسوف" کہتے ہیں ،  اور چاند گرہن کے وقت دو رکعت نماز دیگر نوافل کی طرح انفراداً پڑھنا مسنون ہے، اس میں جماعت مسنون نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں