بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سور کھانے کا حکم


سوال

سور کھانا کیسا ہے؟

جواب

سور ایک نجس اور حرام جانور ہے اور اس کی یہ نجاست اس کے گوشت، چربی بلکہ ہر جزو میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے سور کے حرام ہونے کا چار مرتبہ ذکر فرمایا ہے: سورة البقرة آیت نمبر: 173،سورة المائدة آیت نمبر:3، سورة الانعام آیت نمبر: 145 اورسورة النحل آیت نمبر: 115۔اور ان آیات میں قطعی طور پر خنزیر کا گوشت کھانا حرام قرار دیا ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَماً مَسْفُوحاً أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ."(الأنعام:145)

"ترجمہ: آپ کہہ دیجئیے: کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ہیں ان میں تو میں کوئی حرام غذا پاتا نہیں کسی کھانے والے کے لیے جو اس کو کھاوے مگر یہ کہ وہ مردار (جانور) ہو ،یا یہ کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے ۔(از:بیان القرآن)"

مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے صرف گوشت کا ذکر اس لیے کیا کہ اصل مقصود گوشت ہی ہوتا ہے اور باقی اشیاء اس کے تابع ہوتی ہیں، اس لیے اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ خنزیر نر ہو یا مادہ، زندہ ہو یا مردہ اپنے تمام اجزاء، گوشت،پوست ،ہڈی، چربی،بال، ناخن وغیرہ سمیت حرام ہے اور نجس العین(ناپاک) ہے، اس سے نفع اٹھانا اور کسی کام میں لانا حرام ہے۔

تفسير الكبير میں ہے:

"‌أجمعت ‌الأمة ‌على ‌أن ‌الخنزير بجميع أجزائه محرم، وإنما ذكر الله تعالى لحمه لأن معظم الانتفاع متعلق به، وهو كقوله: إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع [الجمعة 9] فخص البيع بالنهي لما كان هو أعظم المهمات عندهم، أما شعر الخنزير فغير داخل في الظاهر وإن أجمعوا على تحريمه وتنجيسه، واختلفوا في أنه هل يجوز الانتفاع به للخرز، فقال أبو حنيفة ومحمد: يجوز، وقال الشافعي رحمه الله: لا يجوز، وقال أبو يوسف: أكره الخزر به."

 (سورة البقرة، الفصل الرابع في تحريم ما أهل به لغير الله، ج:5، ص:200، ط: دار إحياء التراث العربي)

صحیح البخاری میں ہے:

"عن ابن المسيب، انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والذي نفسي بيده ليوشكن ان ينزل فيكم ابن مريم حكما مقسطا، فيكسر الصليب، ويقتل الخنزير، ويضع الجزية، ويفيض المال حتى لا يقبله احد."

(كتاب البيوع، باب: قتل الخنزير، ج:2، ص:774، ط: دار ابن كثير)

الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ میں ہے:  

"‌الخنزير ‌حرام ‌لحمه وشحمه وجميع أجزائه، لقوله تعالى: {قل لا أجد فيما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا أو لحم خنزير فإنه رجس أو فسقا أهل لغير الله به}."

(‌‌الحيوان البري: حلاله وحرامه، النوع العاشر: الخنزير، ج:5، ص:140، ط: دارالسلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102843

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں