بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سود کمانے والی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا اور ملازمت کرنا


سوال

یونیورسٹیوں میں طلبہ سے سکیورٹی فیس کے نام پر پیسے لیے جاتے ہیں اور وہ پیسے چار سال بعد طالب علم کو واپس  کیے جاتے ہیں ۔یونیورسٹی وہ پیسے چار سال کے  لیے بینک میں فکسڈ ڈپازٹ یعنی سود پہ دیتی ہے،  جس کے بدلے یونیورسٹی کو منافع ملتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسی یونیورسٹی میں پڑھنا یا جاب کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

اگر کوئی یونیورسٹی طلبہ سے لی گئی فیسوں کو فکسڈ ڈپازٹ میں رکھ کر نفع حاصل کرتی ہے تو اس کے ذمہ داران کا یہ طرزِ عمل درست نہیں، اور ان کو ان معاملات سے توبہ کر کے فورًا اپنا پیسہ ایسے اکاؤنٹ سے نکال لینا چاہیے۔ البتہ  ان کے اس عمل کی وجہ سے  وہاں تعلیم حاصل کرنا ناجائز نہ ہوگا،بشرط یہ کہ وہاں دیگر غیر شرعی امور  نہ پائے جاتے ہوں)۔  نیز  اگر   اس ادارے کی غالب آمدنی کا ذریعہ سود ہی ہے تو اس میں ملازمت کرکے تنخواہ لینا جائز نہیں، اور اگر غالب آمدنی حلال ذرائع سے ہو تو کام کرنا اور تنخواہ لینا جائز ہوگا۔

الأشباه والنظائر میں ہے:

’’القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها، كما علمت في التروك. وذكر قاضي خان في فتاواه: إن بيع العصير ممن يتخذه خمراً إن قصد به التجارة فلا يحرم، وإن قصد به لأجل التخمير حرم، وكذا غرس الكرم على هذا (انتهى). وعلى هذا عصير العنب بقصد الخلية أو الخمرية، والهجر فوق ثلاث دائر مع القصد، فإن قصد هجر المسلمحرم وإلا لا‘‘.

(الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 23)، الفن الاول: القواعد الکلیۃ، ط: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان)

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا".

(أخرجه البيهقي في الكبرى في«باب كل قرض جر منفعة فهو ربا» (5/ 571) برقم (10933)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ = 2003م)

"عن عمارة الهمداني قال: سمعت عليًّا رضي الله عنه يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل قرض جر منفعة فهو ربا".

( أخرجه الحارث في مسنده كما في المطالب العالية:«باب الزجر عن القرض إذا جر منفعة»(7/ 326) برقم (1440)،ط. ار العاصمة ، دار الغيث – السعودية، الطبعة: الأولى، 1419.)

فتاوی شامی میں ہے:

"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر".

(کتاب البیوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام (5/ 166)،ط. سعيد،كراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200984

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں