بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سوتیلے والدین کے ساتھ بھی حقیقی والدین جیسا سلوک اور برتاؤکرنے کا حکم


سوال

1۔سوتیلے والدین سے محبت کی جاتی ہے کیا ان کے ساتھ سگے والدین کی طرح سونا ، بوسہ لینا، تنہائی میں ساتھ رہنا،قریب بیٹھنا جائز ہے؟

2۔اگر بیوی سوتیلے بیٹے اورسوتیلی ماں کو ایک بستر پر سونے سے منع کرے تو اس کو طلاق دے دینی چاہیے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں سوتیلی والدہ والد کی منکوحہ ہونے کی وجہ سے بیٹے کے لیے محرم ہے،اس وجہ سے بیٹے کے لیےشرعی حدود اور پابندیوں کی رعایت کرتے ہوئے ہر اس عمل کو کرنا جائز ہے،جو وہ اپنی حقیقی والدہ کےساتھ کرسکتاہے،  تاہم اگر بیٹا جوان ہو اور سونے ، بوسہ لینے اور تنہائی میں ساتھ رہنے سے فتنے کا اندیشہ ہو تو تنہائی میں ہر اس عمل سے احتیاط لازم ہے جس سے بعد میں شرمندگی یا پشیمانی ہو۔

2۔بیٹے کا اپنی سوتیلی والدہ کے ساتھ ایک ہی بستر پر سونے سے اس بات کا اندیشہ ہوتاہے کہ کبھی شیطانی خیالات غالب آجائیں اور ایک دوسرے کو شہوت سے ہاتھ لگائےتو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی، اور عورت اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی، اس لیے دونوں کو چاہیے کہ احتیاط سے کام لیں ، کوئی ایسی بے احتیا طی نہ کریں کہ ایک دوسرے کے بارے میں دل میں گندے خیال آئیں۔

حدیثِ مبارکہ میں بچے کی عمر دس سال ہونے پر ان کے بستر الگ کرنے کا حکم ہے،البتہ بیوی اگر اپنےشوہر کو سوتیلی والدہ کے ساتھ ایک ہی بستر پر سونے سے منع کرے تو اس منع کو احتیاطی پہلو سے دیکھا جائے جو شریعت کا تقاضا بھی ہے، اس  کی وجہ سے طلاق جیسے بڑے اقدام سے پرہیز کرنا چاہیے۔ 

 چناچہ ارشاد ہے:

"وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلاً."(النساء:22)

ترجمہ:"اور تم ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمھارے باپ (دادا یا نانا) نے نکاح کیا ہو مگر جو بات گزرگئی (گزرگئی) بےشک یہ (عقلا بھی) بڑی بےحیائی ہے اور نہایت نفرت کی بات ہے ۔ اور (شرعا بھی) بہت برا طریقہ ہے "۔(بیان القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

''رجل تزوج امرأة على أنها عذراء فلما أراد وقاعها وجدها قد افتضت فقال لها : من افتضك ؟ .فقالت : أبوك إن صدقها الزوج ؛ بانت منه ولا مهر لها وإن كذبها فهي امرأته ، كذا في الظهيرية .لو ادعت المرأة أن مس ابن الزوج إياها كان عن شهوة لم تصدق والقول قول ابن الزوج ، كذا في السراج الوهاج. رجل قبل امرأة أبيه بشهوة أو قبل الأب امرأة ابنه بشهوة وهي مكرهة وأنكر الزوج أن يكون بشهوة فالقول قول الزوج ، وإن صدقه الزوج وقعت الفرقة ويجب المهر على الزوج ويرجع بذلك على الذي فعل إن تعمد الفاعل الفساد ، وإن لم يتعمد ؛ لايرجع."

(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، ج:1، ص:276، ط: دارالفكر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق :

 "قوله: (وامرأة أبيه وابنه وإن بعدا) أما حليلة الأب فبقوله تعالى: { ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء } النساء 22 فتحرم بمجرد العقد عليها والآية المذكورة استدل بها المشايخ كصاحب النهاية وغيره على ثبوت حرمة المصاهرة بالزنا بناء على إرادة الوطء بالنكاح فإن أريد به حرمة امرأة الأب والجد ما يطابقها من إرادة الوطء قصر عن إفادة تمام الحكم المطلوب حيث قال: و لا بامرأة أبيه."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات في النكاح،ج:3،ص: 100، ط:دارا لكتاب الاسلامي)

حدیث شریف میں  ہے:

"وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين واضربوهم عليها وهم أبناء عشر سنين وفرقوا بينهم في المضاجع» . رواه أبو داود وكذا رواه في شرح السنة عنه."

(کتاب الصلوٰۃ، الفصل الثانی، ج:1، ص:59، ط:رحمانیہ)

ترجمہ:’’ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد مکرم سےاور وہ اپنےدادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے بچے سات برس کےہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو،اور جب وہ دس برس کے ہوجائیں(تو نماز چھوڑنے پر) انہیں مارو، نیز ان کے بسترے علیحدہ کرلو۔‘‘(ابو داود)

(مظاہرِ حق، ج:1، ص:415، ط: دارالاشاعت)

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 278):

"قال المناوي في فتح القدير: أي: فرقوا بين أولادكم في مضاجعهم التي ينامون فيها إذا بلغوا عشراً، حذروا من غوائل الشهوة وإن كن أخوات. انتهى. قال الطيبي: إنما جمع بين الأمر بالصلاة والفرق بينهم في المضاجع في الطفولية تأديباً ومحافظة لأمر الله تعالى، لأن الصلاة أصل العبادات، وتعليماً لهم المعاشرة بين الخلق، وأن لايقفوا مواقف التهم، فيجتنبوا محارم الله كلها. انتهى."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں