بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سوتیلی والدہ سے نکاح کا حکم


سوال

کیا کسی صورت میں سوتیلی ماں سے نکاح جائز ہے کسی امام کے نزدیک ؟

جواب

کسی شخص کے لیے اپنی سوتیلی ماں یعنی اپنے والد کی منکوحہ سے (چاہے والد نے فقط عقد کیا ہو دخول نہ کیا ہو تب بھی )نکاح کرنا قرآنِ  کریم کی نصِّ صریح کی بنا پر حرام ہے، کسی امام کے  ہاں سوتیلی والدہ سے نکاح جائز نہیں۔

قرآن کریم میں ہے :

{وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا وَسَاۗءَ سَبِيْلًا}[النساء :22]

ترجمہ :ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے ماں باپ نکاح کر چکے ہیں، مگر جو پہلے ہو چکا،  بے شک یہ بےحیائی ہے اور غضب کا کام ہے اور برا چلن ہے۔

تفسیر عثمانی میں مذکورہ آیت کے تحت درج ہے :

"جاہلیت والے اپنی سوتیلی، ماں اور بعض دیگر محرمات سے بھی نکاح کر لیتے تھے جس کا تذکرہ ابھی گزرا، اس کی ممانعت کی جاتی ہے کہ جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح مت کرو یہ بےحیائی اور اللہ کے غضب اور نفرت کرنے کی بات ہے اور بہت برا طریقہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی سمجھ دار لوگ اس کو مذموم سمجھتے تھے اور اس نکاح کو  "نکاح مقت"  اور اس نکاح سے جو اولاد ہوتی اس کو "مقتی"  کہتے تھے،  سو ایسے نکاح جو ہو چکے ہو چکے آئندہ کو ہرگز ایسا نہ ہو ۔ 

فائدہ: باپ کی منکوحہ کا جو حکم ہے اسی حکم میں دادے اور نانے کی منکوحہ بھی داخل ہے، کتنا ہی اوپر کا دادا اور نانا کیوں نہ ہو۔ "

معارف القرآن میں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

"ولا تنكحوا مانكح آبآؤ كم، جاہلیت کے زمانہ میں اس میں کوئی باک نہیں کیا جاتا تھا کہ باپ کے  مرنے کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کر لیتے تھے، اس آیت میں اللہ پاک نے اس بے شرمی اور بے حیائی کے کام سے منع فرمایا اور اس کو موجب مقت یعنی خدائے پاک کی ناراضگی کا باعث بتایا، ظاہر ہے کہ یہ کیسی اخلاق کی موت اور کردار کی خرابی ہے کہ جس کو ایک عرصہ تک ماں کہتے رہے، اس کو باپ کی موت کے بعد بیوی بنا کر رکھ لیا۔

مسئلہ :- آیت شریفہ میں باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا ہے، اس میں اس بات کی قید نہیں لگائی ہے کہ باپ نے ان سے وطی بھی کی ہو، لہٰذا کسی بھی عورت سے اگر باپ کا عقد بھی ہو جائے تو اس عورت سے بیٹے کے  لیے نکاح کبھی بھی حلال نہیں ۔"

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 100):

 "قوله: (وامرأة أبيه وابنه وإن بعدا) أما حليلة الأب فبقوله تعالى: { ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء } النساء 22 فتحرم بمجرد العقد عليها والآية المذكورة استدل بها المشايخ كصاحب النهاية وغيره على ثبوت حرمة المصاهرة بالزنا بناء على إرادة الوطء بالنكاح فإن أريد به حرمة امرأة الأب والجد ما يطابقها من إرادة الوطء قصر عن إفادة تمام الحكم المطلوب حيث قال: و لا بامرأة أبيه."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144212201104

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں