بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سوتیلی بیٹی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے سے بیوی حرام ہوجاتی ہے


سوال

اپنی سوتیلی بیٹی یعنی اپنی بیوی کی بیٹی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے سے اس کے اپنی بیوی سے نکاح پر کیا اثر پڑتا ہے اور قائم کیے گئے تعلق کی حد بھی بتادیں کے کس حد تک تعلق پر کون سے احکامات نافذ ہو جاتے ہیں؟

جواب

اگر کوئی شخص اپنی سوتیلی بیٹی (یعنی اپنی بیوی کی بیٹی)  کے ساتھ جسمانی تعلق (صحبت)قائم کرلیتا ہے تو شرعا اس کی لڑکی کی ماں (یعنی اپنی بیوی )اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہےاور  شوہر پر ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے متارکت بالقول کرلے یعنی زبان سے یہ کہے کہ”میں نے تمہیں چھوڑدیا،تمہیں آزاد کیا وغیرہ۔

نیز واضح رہے کہ حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لیے جسمانی تعلق   (یعنی صحبت) کاقائم ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر کوئی شخص کسی عورت کو حائل کے بغیر شہوت سے چھوتا  ہے تو اس لڑکی کے اصول (والدہ وغیرہ) و فروع (بیٹی وغیرہ) اُس مرد پر درج ذیل شرائط کے ساتھ حرام ہوجاتے ہیں :

1.وہ عورت جسے شہوت سے چھویا گیا ہو وہ  مشتہاۃ (قابلِ شہوت) ہو، یعنی کم از کم نو سال کی ہو ۔

2.مس (چھونے) کے وقت یا  نظر (شرم گاہ کی طرف دیکھنے) کے وقت شہوت پائی جائے ۔

3.چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو اور دل کو لذت حاصل ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔

4.شہوت کے ساتھ چھونا اس طور پر ہو کہ درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ حائل نہ ہو اور اگر درمیان میں کوئی کپڑا حائل ہوتو  اتناباریک ہوکہ جسم کی حرارت پہنچنے سے مانع نہ ہو۔

5.شہوت کے  ساتھ  چھونے، بوسہ دینے یا شرم گاہ کو دیکھنے کی وجہ سے انزال نہ ہوا ہو ، اگر مذکورہ صورتوں میں انزال ہوجائے تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔

لہذا اگر مذکورہ شخص اپنی سوتیلی بیٹی  (اپنی بیوی کی بیٹی) کو   اس قسم کے چھونے کااقرار کرتاہے اور مذکورہ شرائط پائی جاتی ہیں تو  اس کی بیوی اس پر حرام ہوجاتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وتثبت بالوطء حلالا كان أو عن شبهة أو زنا، كذا في فتاوى قاضي خان. فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت.وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة، كذا في الذخيرة. سواء كان بنكاح أو ملك أو فجور عندنا، كذا في الملتقط. قال أصحابنا: الربيبة وغيرها في ذلك سواء هكذا في الذخيرة."

(کتاب النکاح،الباب الثالث فی المحرمات،ج۱،ص۲۷۴،ط؛دار الفکر)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة، والوطء بها لا يكون زنا.

(قوله: وبحرمة المصاهرة إلخ) قال في الذخيرة: ذكر محمد في نكاح الأصل أن النكاح لا يرتفع بحرمة المصاهرة والرضاع بل يفسد حتى لو وطئها الزوج قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه عليه أو لم يشتبه عليه. اهـ.

(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ.

وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك، وأما غير المدخول بها فقيل تكون بالقول وبالترك على قصد عدم العود إليها.

وقيل: لا تكون إلا بالقول فيهما، حتى لو تركها، ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر فافهم."

(کتاب النکاح،ج۳،ص۳۷،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100304

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں