بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سوتیلی والدہ کے ترکہ میں میراث کا حکم


سوال

میرے والد صاحب محکمہ پولیس میں آفیسر تھے، 2011 میں میری والدہ کا انتقال ہوا تو والد صاحب نے 2012 میں دوسری شادی کی، 2021 میں میرے والد صاحب کا بھی انتقال ہوا، والد کی پہلی بیوی سے ہم چار بھائی اور چار بہنیں ہیں، اور دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے، والد صاحب نے جب جائیداد تقسیم کی تو والد کی دوسری بیوی یعنی ہماری سوتیلی ماں کے حصے میں ایک دکان آئی، اب 2023 میں ہماری سوتیلی ماں کا بھی انتقال ہوا ،سوتیلی ماں کی کوئی اولاد نہیں ہے،لیکن ان کی بیوہ والدہ، دو بھائی اور دو بہنیں ہیں،میرا سوال یہ ہے کہ سوتیلی ماں کو جو دکان ملی تھی، اب ان کے انتقال کے بعد یہ دکان کس کی ملکیت ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل کی سوتیلی والدہ مرحومہ  کا ترکہ ان کے شرعی ورثاء   یعنی   مرحومہ کی والدہ اور حقیقی بہن بھائیوں  میں  ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم  ہوگا ،سائل اور سائل کے بہن بھائیوں کا ان  کے ترکہ میں کوئی حق وحصہ نہیں  ہے۔

اور مرحومہ کے ترکہ کی تقسیم کا    طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلےمرحومہ کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحومہ کے ذمہ کسی کا کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل جائیداد منقولہ وغیر منقو لہ  کو36حصوں میں تقسیم کر  کے6حصے  مرحومہ کی   والدہ کو،10 حصےکر کے    مرحومہ      کےہر ایک  بھائی کو اور5 حصے کر کے  مرحومہ  کی  ہر ایک  بہن کو  ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت: 6/ 36

والدہبھائیبھائیبہنبہن
15
6101055

یعنی فیصد کے اعتبار سے 16.66فیصد  مرحومہ کی والدہ کو،27.77 فیصد  مرحومہ کے   ہر ایک بھائی کو،13.88فیصد  مرحومہ کی  ہر ایک بہن    کو ملیں گے۔ 

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌لأن ‌الإرث ‌إنما ‌يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»."

(كتاب الحدود، فصل في شرائط جواز إقامة الحدود، ج:7، ص:57، ط: دار الكتب العلمية)

تبیین الحقائق میں ہے:

"(والأخوات لأب وأم كبنات الصلب عند عدمهن) أي عند عدم البنات وبنات الابن حتى يكون للواحدة النصف، وللثنتين الثلثان، ومع الإخوة لأب وأم للذكر مثل حظ الأنثيين لقوله تعالى {قل الله يفتيكم في الكلالة إن امرؤ هلك ليس له ولد وله أخت فلها نصف ما ترك وهو يرثها إن لم يكن لها ولد فإن كانتا اثنتين فلهما الثلثان مما ترك وإن كانوا إخوة رجالا ونساء فللذكر مثل حظ الأنثيين} [النساء: 176]."

(كتاب الفرائض، أحوال الأم في الميراث، الأخوات لأب وأم أحوالهن في الميراث، ج:6، ص:233،236، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102046

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں