بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سوتیلے بیٹے اور دینی مدارس کے لیے وصیت کرنے کا حکم


سوال

میرے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے ، اور میری کوئی اولاد نہیں ہے ، میرے شوہر کی پہلی بیوی سے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں ، میرے چار بھائی اور چار بہنیں ہیں اور ایک سوتیلی بہن ہے ، جو کہ میرے والد مرحوم کی پہلی بیوی سے ہے ۔ 

میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد مجھے ورثہ ملا ہے ، کیا میں اس میں سے اپنے سوتیلے بیٹے کے لیے کچھ وصیت کرسکتی ہوں ؟ اس کے علاوہ دینی مدارس کے لیے بھی کچھ وصیت کرنا چاہتی ہوں ،  برائے مہربانی مجھے بتائیں کہ میں شرعی طور سے کس طرح اپنے سوتیلے بیٹے اور دینی مدارس کے لیے وصیت کرسکتی ہوں۔

وضاحت : شوہر کی پہلی بیوی کا شوہر کی زندگی میں انتقال ہو گیا تھا ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ اپنے کل مال کی تہائی میں سے سوتیلے بیٹے اور اسی طرح دینی  مدارس اور دیگر خیر کے کاموں کے لیے وصیت کرسکتی ہے ، اس بات کا خیال رہے کہ وصیت کل مال  کے تہائی سے زائد نہ ہو، کیونکہ تہائی مال سے زائد وصیت ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے ۔

تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے :

"ثم ‌تصح ‌الوصية للأجنبي بالثلث من غير إجازة الوارث ولا تجوز بما زاد على الثلث."

(كتاب الوصايا ج : 6 ص : 182 ط : دارالكتاب الاسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144309100006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں