میرے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے ، اور میری کوئی اولاد نہیں ہے ، میرے شوہر کی پہلی بیوی سے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں ، میرے چار بھائی اور چار بہنیں ہیں اور ایک سوتیلی بہن ہے ، جو کہ میرے والد مرحوم کی پہلی بیوی سے ہے ۔
میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد مجھے ورثہ ملا ہے ، کیا میں اس میں سے اپنے سوتیلے بیٹے کے لیے کچھ وصیت کرسکتی ہوں ؟ اس کے علاوہ دینی مدارس کے لیے بھی کچھ وصیت کرنا چاہتی ہوں ، برائے مہربانی مجھے بتائیں کہ میں شرعی طور سے کس طرح اپنے سوتیلے بیٹے اور دینی مدارس کے لیے وصیت کرسکتی ہوں۔
وضاحت : شوہر کی پہلی بیوی کا شوہر کی زندگی میں انتقال ہو گیا تھا ۔
صورتِ مسئولہ میں سائلہ اپنے کل مال کی تہائی میں سے سوتیلے بیٹے اور اسی طرح دینی مدارس اور دیگر خیر کے کاموں کے لیے وصیت کرسکتی ہے ، اس بات کا خیال رہے کہ وصیت کل مال کے تہائی سے زائد نہ ہو، کیونکہ تہائی مال سے زائد وصیت ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے ۔
تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے :
"ثم تصح الوصية للأجنبي بالثلث من غير إجازة الوارث ولا تجوز بما زاد على الثلث."
(كتاب الوصايا ج : 6 ص : 182 ط : دارالكتاب الاسلامي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144309100006
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن