میں نے شرعی پردہ کرنے کی نیت کی ہے،میری والدہ نے میرے ابو سے دوسری شادی کی ہے،اور اس کا ایک بیٹا بھی ہے،وہ بھی ہمارے گھر میں رہتا ہے،وہ اکثر گھر میں رہتا ہے ، اس کے سامنے پردے کا کیا حکم ہے؟ ہمار اگھر چھوٹا ہے، اس گھر میں شرعی پردہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ اور اس لڑکے کا والد ایک لیکن والدہ الگ الگ ہے تو سائلہ اور لڑکا ایک دوسرے کے باپ شريك بھائی بہن ہیں، اور اگر سائلہ اور اس لڑکے کی والدہ ایک لیکن والد الگ الگ ہے تو سائلہ اور لڑکا ماں شريك بھائی بہن ہیں ، اور بہن کا بھائی سے پردہ نہیں ہے۔
لیکن اگر وہ لڑکا سائلہ کا باپ شریک یا ماں شریک بھائی نہیں ہے،بلکہ سائلہ کی والدہ کے دوسرے شوہر کی پہلی بیوی کا لڑکا ہےتو وہ سائلہ کا کسی قسم کا بھائی نہیں ہے، اس سے سائلہ کا شرعی پردہ لازم ہے، شرعی پردہ حکم خداوندی ہے، اور یہ کسی بھی فیملی میں ناممکن نہیں،خواہ گھر چھوٹا ہویا بڑا ،بس دلوں میں اس کی عظمت ہو اور عزم ہو ،تو اللہ تعالیٰ آسانی پیدا فرمادیتے ہیں۔
قرآن مجيد ميں ہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهٰتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوٰتُكُمْ (سورة النساء :23)
ترجمہ : تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں۔(بیان القرآن)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ومن محرمه) هي من لا يحل له نكاحها أبدا بنسب أو سبب ولو بزنا (إلى الرأس والوجه والصدر والساق والعضد إن أمن شهوته) وشهوتها أيضا ذكره في الهداية فمن قصره على الأول فقد قصر ابن كمال (وإلا لا، لا إلى الظهر والبطن) خلافا للشافعي (والفخذ) وأصله قوله تعالى - {ولا يبدين زينتهن إلا لبعولتهن} [النور: 31]- الآية وتلك المذكورات مواضع الزينة بخلاف الظهر."
(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، 367/6، ط: سعید)
وفیہ ایضاً:
"(قوله: وأما بنت زوجة أبيه أو ابنه فحلال) وكذا بنت ابنها بحر."
(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، 31/3، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510100825
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن