بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رضاعی ماں کی سوتیلی بیٹی کی بیٹی سے نکاح


سوال

عفان نے اپنی خالہ نور جہانہ  کی  بیٹی شمائلہ کے ساتھ شادی کی ہے ،عفان بیٹا ہے نازنین کا،وہ بیٹی ہے بی بی  کی ،بی بی کے خاوند نے  دو شادیاں  کی تھیں دوسری بیوی کا نام بلہ نستہ ہے ،عفان نے بلہ نستہ کا دودھ  پیا ہے  جب کہ شمائلہ نے اس کا دودھ نہیں پیا ہے اور نہ ہی ان دونوں  کی ماں نے بلہ نستہ کا دودھ پیا ہے ،بلہ نستہ  نازنین اور نورجہانہ کی سوتیلی ماں ہے ،عفان وشمائلہ کی سوتیلی نانی ہے ،اور صرف عفان کی رضاعی ماں ہے ،پوچھنا یہ ہے کہ  عفان اور شمائلہ کی شادی ہوئی ہے یہ شریعت کی  رو سے صحیح اور درست ہے یا نہیں ،یہ نکاح ہوا ہے یا نہیں ؟

جواب

صورت مسئولہ میں عفان کا شمائلہ کی ماں نور جہانہ کی سوتیلی ماں بلہ نستہ کا دودھ پینے سے شمائلہ کے ساتھ حرمت کا کوئی رشتہ ثابت نہیں ہو ا،اس لیے ان دونوں کا نکاح درست ہے ۔

قرآن مجید میں ہے :

"حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهٰتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوٰتُكُمْ وَعَمَّٰتُكُمْ وَخٰلَٰتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِيٓ أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضٰعَةِ وَأُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبٰئِبُكُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِيْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلٰئِلُ أَبْنَآئِكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ أَصْلٰبِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيمًا."

"ترجمہ:حرام ہوئی ہے تم پر تمھاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اودر خالائیں اور بیٹیاں بھائی کی اور بہن کی اور جن ماؤں نے تم کو دودھ پلایا اور دودھ کی بہنیں اور تمھاری عورتوں کی مائیں اور ان کی بیٹیاں جو تمھاری پرورش میں ہیں جن کو جنا ہے تمھاری ان عورتوں نے جن سے تم نے صحبت کی ،اور اگر تم نے ان سے صحبت نہیں کی تو تم پر کچھ گناہ نہیں اس نکاح میں او ر عورتیں تمھارے بیٹوں کی جو تمھاری پشت سے ہیں ،اور یہ کہ اکٹھا کرو دو بہنوں کو مگر جو پہلے ہوچکا ،بیشک اللہ بخشنے والا مہربان  ہے ۔"

(سورۃ النسآء ،رقم الآیۃ ،23)

فتاوی شامی میں ہے :

"يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب."

(باب الرضاع،ج:3،ص:213،ط:شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144509101787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں