بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سوتیلی والدہ سے زنا کرنے کا حکم


سوال

 کیا اپنی سوتیلی ماں سے زنا کی وجہ سے میرے والد اور سوتیلی ماں کا نکاح ختم ہو جائے گا ؟ جب کہ اس زنا کے عمل کا علم صرف ہم دونوں کو ہو اور کوئی گواہ بھی نہ ہو،  نہ ہی والد کو اس بات کا علم ہو؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں اگر سائل نے واقعۃً اپنی سوتیلی والدہ کے ساتھ (العیاذ باللہ) زنا کا ارتکاب کیا ہے، تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگئی اور سوتیلی والدہ اپنے شوہر (سائل  کے والد) پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی۔

البتہ سائل کے والد کے حق میں حرمت ثابت ہونے کے لیے سائل یا اس کی سوتیلی والدہ کا اقرار کافی نہیں ہے، بلکہ شوہر کی تصدیق یا شرعی شہادت ضروری ہے، لہٰذا اگر سائل کے والد  کو اس واقعہ کا علم نہ ہو یا علم ہونے کے بعد وہ اس کی تصدیق نہ کرے، تو اس کے لیے اپنی بیوی کو علیحدہ کرنا لازم نہیں ہے، تاہم سائل کی سوتیلی والدہ کو چاہیے کہ وہ کسی طرح اپنے شوہر سے طلاق یا خلع لے  کر علیحدہ ہوجائے، اس کے لیے اپنے شوہر (سائل کے والد) کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام.

قال عليه في الرد: (قوله: وحرم أيضا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها. اهـ.

ومثله ما قدمناه قريبا عن القهستاني عن النظم وغيره. وقوله: ويحل إلخ أي كما يحل ذلك بالوطء الحلال وتقييده بالحرمات الأربع مخرج لما عداها وتقدم آنفا الكلام عليه. (قوله: أراد بالزنى الوطء الحرام) ؛ لأن الزنى وطء مكلف في فرج مشتهاة ولو ماضيا خال عن الملك وشبهته."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات،  ٣/ ٣٢، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(قوله: وأصل ماسته) أي بشهوة قال في الفتح: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. اهـ"

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات،  ٣/ ٣٣، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(‌وإن ‌ادعت الشهوة) في تقبيله أو تقبيلها ابنه (وأنكرها الرجل فهو مصدق) لا هي.

وقال عليه في الرد: (قوله: ‌وإن ‌ادعت الشهوة في تقبيله) أي ادعت الزوجة أنه قبل أحد أصولها أو فروعها بشهوة أو أن أحد أصولها أو فروعها قبله بشهوة، فهو مصدر مضاف إلى فاعله أو مفعوله وكذا قوله: أو تقبيلها ابنه، فإن كانت إضافته إلى المفعول فابنه فاعل والأنسب لنظم الكلام إضافة الأول لفاعله والثاني لمفعوله ليكون فاعل يقوم الرجل أو ابنه كما أفاده ح.

(قوله: فهو  مصدق) لأنه ينكر ثبوت الحرمة والقول للمنكر، وهذا ذكره في الذخيرة في المس لا في التقبيل كما فعل الشارح فإنه مخالف لما مشى عليه المصنف أو لا من أنه في التقبيل يفتى بالحرمة ما لم يظهر عدم الشهوة، وقدمنا عن الذخيرة نقل الخلاف في ذلك فما هنا مبني على ما في بيوع العيون."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات،  ٣/ ٣٧، ط: سعيد)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"رجل قبل امرأة أبيه بشهوة أو قبل الأب امرأة ابنه بشهوة وهي مكرهة وأنكر الزوج أن يكون بشهوة فالقول قول الزوج، وإن صدقه الزوج وقعت الفرقة ويجب المهر على الزوج ويرجع بذلك على الذي فعل إن تعمد الفاعل الفساد، وإن لم يتعمد؛ لا يرجع وفي الوطء لا يرجع وإن تعمد بالوطء الفساد؛ لأنه وجب الحد والمال مع الحد لا يجتمع."

(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهرية، ١/ ٢٧٦، ط: دارالفكر)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"(سوال ٥٦١) اگر کوئی شخص اپنے باپ کی زوجہ یعنی سوتیلی ماں سے زنا کرے تو وہ عورت اس کے باپ کے واسطے حلال رہے گی یا نہیں؟

(الجواب) وہ عورت باپ کے لیے حلال نہ رہے گی کما فی ردالمحتار ... لیکن اگر ثبوت زنا کا شہادتِ شرعیہ سے نہ ہو اور باپ اس کو تسلیم نہ کرے، تو پھر باپ کے ذمہ علیحدہ کرنا اس کا لازم نہیں ہے، اور اس کے حق میں حرمت ثابت نہ ہوگی۔ فقط"

(کتاب النکاح، دوسری فصل حرمتِ نکاح بسببِ مصاہرت، ٧/ ٢٤٨، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102548

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں